تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،جاپان میں پچھلے کچھ عرصے سے شرح پیدائش میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ جاپان ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی وزارت صحت، محنت اور بہبود امید کر رہی ہے کہ کچھ اور رقم کے وعدے سے لوگوں کو اپنے خاندان میں مزید ایک بچہ شامل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت بچے کی پیدائش کے بعد نئے والدین کو چار لاکھ 20 ہزار ین (تقریباً 70 ہزار روپے) کی چائلڈ برتھ اینڈ چائلڈ کیئر کی یکمشت گرانٹ کی پیشکش کی جاتی ہے۔ صحت، محنت اور بہبود کے وزیر اس رقم کو پانچ لاکھ ین تک بڑھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے جاپانی وزیر اعظم کے ساتھ اس منصوبے پر بات کی جس کو 2023 کے مالی سال کے لیے قبول کر کے نافذ کیے جانے کا امکان ہے۔جاپان میں بچے کی ڈلیوری کے اخراجات تقریباً چار لاکھ 73 ہزار ین ہیں اور اگر نئی گرانٹ کی منظوری ہوتی ہے تو والدین کے پاس تقریباً 23 سے 30 ہزار ین تک بچیں گے۔ گرانٹ میں 80 ہزار ین کا اضافہ بچے کی پیدائش اور بچوں کی دیکھ بھال کی ایک ساتھ گرانٹ کے لیے اب تک کا سب سے بڑا اور 2009 کے بعد پہلا اضافہ ہوگا۔ 2021 میں جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جاپان میں ایک صدی سے زیادہ عرصے میں سب سے کم شرح پیدائش رہی ہے۔ اعداد و شمار نے آبادی میں کمی کے طویل مدتی مضمرات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے، جو طویل عرصے سے ملک کے پالیسی حلقوں اور سیاسی گفتگو میں تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق، ملک میں گزشتہ سال آٹھ لاکھ 11 ہزار 604 پیدائشیں اور 14 لاکھ 39 ہزار 809 اموات ریکارڈ کی گئیں جس کے نتیجے میں جاپان کی آبادی میں چھ لاکھ 28 ہزار 205 نفوس کی کمی واقع ہوئی۔
کچھ عرصہ قبل وینزویلا ے صدر نکولس میدرود نے بھی اپنے ملک کی خواتین سے اپیل کی تھی کہ ہر عورت کم سے کم چھ بچے پیدا کرکے آبادی میں اضافہ کرے، جنوبی امریکا کے سیاسی اور صحافتی حلقوں نے میدرود کو پاگل قرار دیا،بھرپور تنقید ہونے کے باوجود وینزویلا کے صدر نے کبھی یہ بیان نہیں دیا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیاگیا۔۔ کینیا میں شادی کرنے کیلئے مرد کی ضرورت ہی نہیں ہوتی پھر مرد پتہ نہیں کن سے شادی کرتے ہیں؟؟ وہاں عورت کی عورت کے ساتھ شادی پر ڈاکٹر اور ماہر نفسیات بھی حیران ہیں ۔بیوی کا خرچہ برداشت کرنے کیلئے اپنا بوجھ برداشت کرنا پڑتاہے یا ورزش کیلئے اکھاڑے کی مدد طلب کرناپڑتی ہے۔۔ گوجرانوالہ کے فرد کو تو ورزش کی ضرورت نہیں پڑتی۔ شادی اور بربادی میں تھوڑا سا فرق ہے کسی نے کسی سے پوچھاکہ شادی کس عمر میں کرنی چاہئے تو اس نے کہا کہ جس عمر میں انسان کی عمربڑھنی بند ہو جائے تاکہ شادی کی ضرورت نہ رہے۔۔ محکمہ منصوبہ بندی تو شادی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بیما ر ہو گیا ہے اور اس محکمہ کو خود منصوبہ بندی کی ضرورت پڑ گئی ہے مدرٹریسا نے بہبود آبادی کو چھوڑ کر فلاح و بہبود سے شادی کی لی تھی غیر شادی شدہ شخص کا ایک فائدہ بھی ہے کہ اس کی موت پر سوائے بیوی کے سب روتے ہیں۔
زیادہ پرانی بات نہیں، ہمارے ملک کے رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے وزیر برائے خوراک، بہبود آبادی و بلوچستان فوڈ اتھارٹی سردار عبدالرحمان کھیتران کی اپنی ہی تین بیگمات اور 15 بچے ہیں، انہوں نے بتایا کہ پاپولیشن کا منسٹر ہوں اس لیے چن کر جام صاحب نے مجھے وزارت دی ہے، میری صرف تین بیویاں ہیں، پاپولیشن کی وزارت پہلے میری بیوی کے پاس تھی وہ بھی پہلے یہی کام کرتی رہی ہے اور اب میرا بھی کام یہی ہے۔لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر ان کا انٹرویو چلا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ۔۔ کسی ساتھی سیاستدان یا بیگم کو پروگرام میں آنے کا نہیں بتایا، ایک ہی بار تینوں بیویوں کو بھی پتہ چلے گا۔ ان سے جب بچوں کے نام یاد ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ کوشش کرتا ہوں کبھی کسی کا نام لیتا ہوں تو اس کو آوازیں لگارہا ہوتا ہوں تو وہ گم سم بیٹھا رہتا ہے اور کہتا ہے بابا میں تو نہیں ہوں، وہ ہے۔چوتھی شادی کے بارے میں سوال پر سردار عبدالرحمان نے بتایا کہ ڈیڑھ مہینے سے لاہور میں اسی کے لیے پھررہا ہوں، پورا ارادہ ہے، ایک چھوٹی بیٹی کی تاریخ پیدائش میں چھ دن کا فرق ہے، میری 9جنوری کو تاریخ پیدائش تھی اور اس کی 15جنوری کو، اب وہ ایک سال کی ہوگئی ہے۔ان کیساتھ پروگرام میں شریک ماڈل طیبہ مہر نے بتایا کہ ان سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی ہے، بہت رنگین مزاج ہیں جس پر سردار عبدالرحمان بولے کہ تین پورٹ فولیو تین بیویاں، ابھی چوتھا پورٹ فولیو ملے گا، چوتھی بیوی ۔۔جس پر طیبہ مہر کا کہناتھاکہ بہت حیران ہورہی ہوں، واقعی اس طرح کے بھی لوگ ہوتے ہیں اور انہوں نے ابھی سوچا بھی ہوا ہے کہ ابھی چوتھی کرنی بھی ہے۔بیگمات سے ڈر لگنے کے بارے میں سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے بتایاکہ تینوں بیویاں اور بچے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جو دو بڑی ہیں۔ ماشااللہ میرے پوتے بھی ہیں اور پوتیاں بھی ہیں اور مجھے گنتی یاد نہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہم نے اخبار میںایک سنگل کالم خبر کی سرخی دیکھی، روک سکوتوروک لو۔۔جلدی سے پوری خبر پڑھی تولکھا تھا،پشاور میں محکمہ بہبود آبادی کی ملازمہ نے تین بچیوں کو بیک وقت جنم دیا، روک سکو تو روک لو۔۔۔کراچی میں کتا مار مہم چلی تو کسی این جی او کی پریس ریلیز ایک اخبار کے سٹی پیچ پر لگی،جس میں این جی او نے مطالبہ کیا تھا کہ، کتوں کے ساتھ ’’غیرانسانی‘‘ سلوک بند کیا جائے۔۔محکمہ بہبود آبادی کے ایک کلرک نے کچی آبادی کے سروے کے دوران ایک عورت کی گود میں بچے دیکھ کر پوچھا۔۔آپ کے اس بچے کی کیا عمر ہے؟عورت نے جواب دیا۔۔ارے یہ تو ابھی صرف دو مہینے کا ہے۔۔کلرک شاید کسی سوچ میں گم تھابے ساختہ اگلا سوال پوچھ بیٹھا۔۔اس سے چھوٹا بچہ اور کون ہے؟ یہ سن کر عورت بھنا گئی،غصے سے بولی۔۔اس سے چھوٹے بچے کا پتا تو اس کے باپ کو ہی ہوگا وہ ابھی کام پر گیا ہے شام کو آکر پوچھ لینا۔۔ایک بچہ دیر سے اسکول پہنچا تو ٹیچر نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو اس نے معصومیت سے بتایا کہ ھمارے ہاں ایک نیا بھائی آیا ھے وہ رات بار بار رو کر جگا دیتا تھا اس لیے دیر سے جاگا اور دیر سے اسکول آیا۔ٹیچر نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا اگر وہ زیادہ تنگ کرتا ہے آپ اسے تبدیل کیوں نہیں کر لیتے؟بچے تو معصوم ہوتے ہیں، کہنے لگا۔۔اب یہ ممکن نہیں، ہم اسے تین دن استعمال کرچکے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہم ایسے مسلمان ہیں جو نہ بیٹی کا نکاح خود پڑھا سکتے ہیں نہ باپ کا جنازہ۔۔مگر صبح شام گالیاں علماء کو دیتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔