تحریر: ناصر بیگ چغتائی۔۔
پتہ نہیں اخلاق احمد نے اتنا کیسے لکھ لیا 1985 سے پچھلے سال تک کی یادیں ہیں ۔۔۔۔خود کو نہیں سمیٹ پا رہا ہوں ۔۔۔چند تصویریں بہت سے خطوط کچھ ذاتی کچھ سرکاری ۔ اخلاق احمد ہمایوں عزیز نصیر ہاشمی عارف الحق عارف سے گپ شپ کبھی محمود شام صاحب بھی شامل ہوجاتے جن کا وہ بے حد احترام کرتے تھے ۔۔ ایم جے آر سے کہانیوں پر باتیں خبروں پر گفتگو۔ نئی کتابوں پر بحث ۔۔۔شہابہ کے قصے اور ان کی سنجیدگی کہ سچ بتائیں یہ ہے کون ۔۔۔اخلاق احمد کا ان سے کہنا کہ یہ کہانی مرکزی خیال سے بہت آگے نکل گئی ہے ان کا فون کہ شہابہ آج سے آپ کی اخلاق صاحب کہہ رہے ہیں کی صرف ناصر بیگ چغتائی کا نام جائے گا ۔ جھگڑے شو کاز ۔۔۔۔ترقی ۔۔۔ڈیموشن پھر 4 مہینے میں تین ترقیاں ایڈیٹوریل بورڈ میں بحث ۔۔” مسنگ ” کی تہہ تک پہنچنا ۔۔۔بحران میں سینہ تان کر کھڑا ہو جانا ۔۔۔۔نیوز روم میں آکر اس وقت تک دائیں طرف کی کرسی پر خاموش بیٹھے رہنا جب تک میں الجھا ہوا ہوں سلگتے چنار کی ناول کی شکل میں اشاعت اس پر اپنے دستخط سے پیش لفظ اور ایک ماہ بعد مکمل رائلٹی کا چیک ۔۔۔۔ میرا سعودی عرب جانا اور ان کے ہر کسی جاننے والے سے میری خیریت پوچھنا ۔۔۔۔امی کے انتقال پر میری سعودی عرب میں موجودگی کی اطلاع پا کر ۔۔۔مجھے طویل خط لکھنا اپنے قلم سے ۔۔۔اس بات ہر لڑنا کہ ہر شخض کو دو تین انکریمنٹ کیون لیکن پھر اپنے خوب صورت اردو دست خط کر کے منظوری دینا ۔۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں ایک بار شکیل صاحب سے الجھ جانا کہ ناصر بیگ چغتائی کی گاڑی تبدیل کریں یہ چھوٹی ہے حالانکہ اس دور میں دفتر کی گاڑی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا 1998 میں صرف شام جی اور میرے پاس تھی ( میر شکیل الرحمن اور میر نے جیو میں مجھے ہر ماڈل کی گاڑی دی ہر ایک دو سال بعد تبدیل بھی ہوجاتی تھی)۔۔یادیں اتنی ہوتی ہیں۔۔
پھر آخری ملاقات ۔۔۔بہنوئی کے انتقال پر ۔۔۔۔شکیل تو اسلام آباد میں ہے ۔ لیکن سب صدمے میں ہیں ہمارا بھی چل چلاو ہے ۔۔۔۔کچھ سنو تو دل گیر نا ہونا شاید ان کو اندازہ تھا ۔۔۔
اور یہ بھی یاد ہے کہ رحمانیہ مسجد کا قبرستان ۔۔ہٹو بچو کے نعرے ۔ ہم ایک دھکے سے دور جا گرے پھر کھڑے ہوئے ۔میر خلیل الرحمان کی نماز جنازہ میں وزیر اعظم آئے تھے فوج فرا تھی ۔۔۔صف بندی ہوچکی تھی ۔۔لیکن امام کو کسی نے روک دیا کسی کو آواز دی جارہی تھی ۔۔۔میرا نام کون پکار رہا تھا ۔۔۔مدثر کا بھی نام آیا ۔۔۔ہمارے پہلی صف میں آنے تک میر جاوید رحمان اور میر شکیل الرحمن نے نماز جنازہ روک دی تھی کہ یہی تو میر صاحب کے سب سے قریب تھے ۔۔۔۔
اور میں میر جاوید رحمان کی نماز جنازہ میں کسی صف میں نا تھا ۔ ۔۔۔۔۔وہ سمجھ گئے ہونگے کہ کیا ہوا ہے ۔۔۔وقت کے فرعونوں کا یہ جبر بھی یاد رہے گا کہ چھوٹے بھائی میر شکیل الرحمن کو بڑے بھائی سے دم آخر ملاقات نہیں کرنے دی گئی ۔۔۔
جاوید صاحب ۔۔۔۔لکھوں گا ۔۔آپ پر ضرور لکھنا ہے ۔ بس بھائی اخلاق جیسی طاقت حاصل کرلوں ۔۔شرط لگا لیں۔۔
شرط پر یاد آیا ۔۔۔ایک بار کراچی میں زوردار بارش ہوئی تھی شاید 1992 کی بات ہے ۔ سب نے جاوید صاحب سے شرط لگائی تھی کہ پانی بہت ہے ناصر بیگ چغتائی نہیں پہنچ ہائیں گے لیکن آپ نے کہا تھا میر صاحب کا شاگرد ہے ضرور آئے گا اور جب انہوں نے سی سی ٹی پر مجھے اپنی مہران میں 4 افراد سمیت دیکھا تو کس طرح اٹھ کر فاتحانہ انداز میں نیچے آئے تھے ۔۔۔مجھے سب یاد ہے اس دن سارے ہوٹل بند اور پانی میں ڈوبے ہوئے تھے تو خود کھانا لائے تھے(ناصر بیگ چغتائی)۔۔۔