nakafi hein lafazian

بے چارے میڈیا والے

تحریر: شکیل بازغ

پاکستان میں دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح عوام کا پرسان حال کوئی نہیں۔ بجٹ آسودگی لے کر کبھی نہ آیا۔ ایک خاص طبقہ مراعات سمیٹتا ہے۔ جس میں سرمایہ دار کے وارے نہارے ہیں۔ عالمی معیار کے بین الاقوامی گنتی کے چند نجی ادارے کسی حد تک اپنے ملازمین کو انکے حقوق دیتے نظر آتے ہیں۔ اسکی بڑی وجہ شاید قانون کی پاسداری ہے۔ یا پھر ان اداروں کی اپنی پالیسی ہے۔ قوانین موجود ہیں لیکن سرمایہ دار ہی جب حکمران طبقہ ہو تو عوام کی کھال ہڈیوں سے اترنا ضروری ٹھہر جاتا ہے۔ تمام وسائل تمام کاروباروں پر اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ ملک میں ہر شے کا نرخ اسی طبقے کی منشاء پر طے ہوتا ہے۔ یاد رکھیں عوام وفادار تب تک رہتے ہیں جب تک اسکی جیب پر حیثیت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

ملازمین یعنی تنخواہ دار طبقہ  خصوصاً میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والے جبر کی بھٹی میں پِس رہے ہیں۔ سالانہ تو کیا پانچ پانچ سال تک تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ہاں مختلف حیلوں بہانوں سے کٹوتیاں ضرور ہوتی ہیں۔ ٹیکسز کٹتے ہیں لیکن کوئی ریکارڈ نہیں۔ ترقیاں ہوتی ہی نہیں۔ مقررہ اوقات سے زیادہ کام لینا معمول ہے۔ نئے آنے والوں کو سال سال فری میں کام کرنا پڑتا ہے۔ میں تو کئی ایسے اینکرز کو بھی جانتا ہوں جو سال سے زیادہ عرصہ سے سکرین پر نیوز پڑھ رہے ہیں لیکن وہ انٹرنی ہی سمجھے جاتے ہیں۔ ادارے انہیں employee cardجوائننگ لیٹر تنخواہ کچھ بھی تو نہیں دے رہے۔ ہاں وقت کی پابندی شوکاز ڈانٹ ڈپٹ برابر چل رہی ہے۔ جب چاہا کسی کو وجہ بتائے بغیر ادارے سے بغیر نوٹس نکال دیا۔ اسکی بھلے سروس پندرہ بیس سال ہو۔ نہ کوئی سروس فنڈ نہ کوئی ڈھارس نہ کوئی حوصلہ بس پشت پر بے دردی سے ٹانگ ماردی جاتی ہے۔  یہ سب اس لیئے ہورہا ہے کہ بقول ایک بزرگ صحافی قانون اشرافیہ کے حق میں نرم ثابت ہوا ہے۔ آپ بہت بڑے کریمینل بن جائیں خوب لوٹ مار کرکے اہل حکم کا بازو بنیں آپکے لیئے زندگی کی ہر آسائش ہے۔ آپ مزدور ہیں حلال رزق کو عبادت سمجھتے ہیں تو آپ کو اسکی سزا بھگتنا ہوگی۔ وہ جنہوں نے ضمیر بیچ دیئے یہ انکا دور ہے۔ اور یہی جبر کا دور فرمایا گیا۔

حکومت کا کام ہے کہ میڈیا ملازمین کی فلاح و بہبود ترقی تنخواہوں میں اضافوں کا سروس سٹرکچر بنا کر باقاعدہ قانون بنا دیا جائے۔ جس پر عملدرآمد کا فول پروف میکانزم بنایا جائے۔

حکمرانوں کے ہمیشہ  سے دعوے نعرے کھوکھلے رہے۔ عملاً کبھی عوام بارے سوچا ہی نہیں گیا۔ الیکشن کمیشن سالانہ جو سیاستدانوں کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کرتا ہے دیکھ ہر ہنسی آتی ہے اور لعنت بھیجنے کو دل کرتا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن بونگا ہے؟سچ تو یہ ہے کہ ملکی وسائل پر قابض حکومتیں اور ان کے مُہرے عالمی وسائل پر قابض چند لوگوں کے مفادات کے محافظ ہیں۔

  ملک میں غربت کی لکیر سے تلے آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جہلوریت کے ثمرات و فضائل سنتے سنتے کان پک گئے لیکن مجال ہے کہ لمحہ بھر کی بھی راحت عوام کو ملی ہو۔ مادیت پرستی کو ہی مذہب بنانا تھا تو اسکی برکات ہی ثابت کردیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ملک اشرافیہ کی چراگاہ ہے۔ عوام مفلوک الحال اور حکمران جابر کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام سرمایہ دار کے مفادات کا نظام ہے۔(شکیل بازغ)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں