تحریر: سید عارف مصطفی
یہ سمجھنا غلط ہے کہ سبھی خواتین کو بننے سنورنے اور سجنے سے دلچسپی ہوتی ہے کیونکہ ایک فیصد خواتین ایسی نہیں بھی ہوتیں ۔۔۔ یہ وہ خواتین ہیںجواپنی خوبصورتی کے لیئے صرف خدائی انتظام پہ انحصار کرتی ہیں باقی کی ڈھارس بندھانے کے لئے جابجا بنے بیوٹی پارلرز اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جہاں سے ری کنڈیشنڈ ہونے کے بعد بعض اوقات شکل اس حد تک بدل جاتی ہے کہ کسی مرمت شدہ چہرے والی کے بیوٹی پارلر سے باہر آنے کے بعد خود اس کا شوہر یہ پوچھ رہا ہوتا ہے ‘بہن اندر پوچھ کے بتائیں زبیدہ کے نکمیک اپ میں اور کتنی دیر لگے گی- -جس عمل کا نام میک اپ ہے ، اسکی دنیائے نسوانیت میں اہمیت آکسیجن کے بعد سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہاں نظام تنفس اور نظام تسکین ہم پلہ ہوتے ہوتے رہ گئے ہیں اور جسے کسی وقت عالم نسواں کے غالب آجانے کے بعد حقوق انسانی میں سب زیادہ اہم کا درجہ مل جانا یقینی ہے بیوٹی پارلر درحقیقت جسمانی حسن کا ورکشاپ ہے جہاں میک اپ کسی عفیفہ کی زندگی میں جوہری دھماکے جیسی تبدیلیاں لانے کا سبب بن سکتا ہے اور قبرستان کے بعد بیوٹی پارلر ہی وہ دوسرا مقام ہے کہ جہاں کبھی زبان کو تالو سے نہ لگانے والی پرکالائیں بھی مکمل سکوت و سکتے میں دکھائی دیتی ہیں کہ انہیں بنام میک اپ ۔ خاموشی و متانت کا کوبرا سانپ سونگھ جاتا ہے ۔۔۔ یہ مقام وہ ہے کہ جو انسان کو یہ سمجھنے کا عرفان عطا کرتا ہےکہ ” غرض انسان کو کہاں تک مجبور و بے بس کرتی ہے ” اسے ہم سزا بالرضاء بھی کہسکتے ہیں ،،، اسی کایا پلٹ قسم کی خاصیت کے باعث بیوٹی پارلروں میں عموما ایسی معمر و بوسیدہ خواتین کا بھی تانتا سا بندھا رہتا ہے کہ جو وہاں عمر رفتہ کو آواز دینے اور گئے دنوں کا سرغ پانے کی مہم پہ کمربستہ ہوتی ہیں ، ‘ خاصی بھاری تاوان ادا کرتی ہیں اورچنی کاکی’ سی نظر آنے کےلیئے یہ الگ بات کہ اس کڑی مشقت کے باوجود کھوئی جوانی بھی ہاتھ نہیں آپاتی اوروہ معمر ہونے کا وقار بھی کھودیتی ہیں دیکھا جائے تو بیوٹی پارلر والے دلہنوں کی ہمت بندھانے کا سبب ہیں کہ اسی باعث کبھی کبھی تو دلہن کا گھونگھٹ اٹھاتے ہی دلہا کی گھگھی بندھ جاتی ہے شاید اسی لیئے اب حجلہء عروسی میں دودھ کا بڑا والا گلاس رکھنے لگے ہیں- شوہروں کی بڑھتی آمدنی اور خواتین کی بڑھتی مجبوریوں کے باعث وہاں کام کا رش بہت بڑھتا جارہا ہے جسکی وجہ سے اکثر جگہ میک اپ کے نام پہ بھگدڑ سی مچی رہتی ہے اور اسی ہبڑ دبڑ کی وجہ سے اکثر بیوٹی پارلرز میں طوفانی رفتار سے نپٹائی گئی دلہن کی آنکھیں کہیں ہوتی ہیں تو مسکارا کہیں اور اسی طرح لپ اسٹک بھی ضرورت سے زائد رقبے پہ جلوہ گری کرتی ہے اور ہونٹ ادھر ادھرپڑے ہوئے سے لگتے ہیں-اکثرتو عجلت میں ضرورت کی مایوں کے سر پہ بالوں کی ایسی ہمالیائی ڈھیری سی بنادی جاتی ہے کہ جیسے کوئی آتش فشاں لاوا اگلنے کو ہے ۔۔۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ مسکراہٹ کی توفیق سے محروم خواتین کے گالوں پہ سفاکی ہٹانے کیلیئے ایک خصوصی جتن کیا جاتا ہے اور خوش اخلاقی کا وقتی تاثر ابھارنے کیلیئے مسکراہٹ کے گڑھے یا چاہ ذقن دکھانے کی ڈھیر سا مصالحہ لیپ کر اس میں دو مصنوعی گڑھے پیدا کردیئے جاتے ہیں کے جن میں بیچارہ دولہا پہلی ہی شب اپنے اوسان سمیت ایسا جا گرتا ہے کہ کبھی نہیں سنبھل پاتا -البتہ محبت کی شادی میں بیوٹی پارلر کو کوئی دوش نہیں دیتا جسکی وجہ عام طور پہ یہ ہوتی ہے کہ عام طور پہ محبوبہ کے چہرے کا ایک تل ہی دلہا کو بالآخر یہ دن دکھانے کی نوبت لاتا ہے ۔۔۔۔ لیکن اگلے دن کی صبح منہ دھلنے پہ سب سے پہلے کمبخت وہی تل دھل دھلا کرناپید ہوجاتا ہے۔۔۔شادی اگر خاندان میں ہوئی ہو تو بیوٹی پارلر سے کروائےہوئے میک اپ کے بل پہ اس دیکھی بھالی لڑکی سے کم ازکم شادی کے دن تو نجات مل ہی جاتی ہے۔۔ جہاں سے گویا شرطیہ تبدیل شدہ منہ ہاتھ لگتا ہے – اسی لیئے اگرکسی وجہ سے رفیق سفر نہ بدل سکیں تو اس کا بیوٹی پارلر بہرحال بدلتے رہنا چاہیئے ۔۔ اس لحاظ سے بیوٹی پارلر کا شعبہ واحد ہے کہ جہاں دھوکا دہی کو قانونی تحفظ میسر ہے-گو اس جدید دور میں میک اپ کے فن نے بھی کافی ترقی کی ہے ، لیکن نجانے کیوں اب بھی بیوٹی پارلر سے میک اپ کرانے کے بعد جب کسی دلہن کو سرسری سا دیکھیں تو پہلی نظر میں تو وہ لازمی اک کٹھ پتلی یا زندہ لاش سی سفید پڑی معلوم ہوتی ہے ۔۔۔ حالانکہ مصنوعی سازوسامان بھی ڈھیروں لادا جاتا ہے جیسے مورچھل جیسی لمبی لمبی مصنوعی پلکیں کہ گویا بار بار اٹھ کر آنکھوں کو پنکھا جھلتی ہوں (لیکن کوئی سادہ لوح اگر غفلت میں پنکھا ذرا تیز چلا دے تو پلکوں کے مورچھل کے یہ پر بہت دور جاگرتے ہیں مگر پھٹی پھٹی آنکھیں وہیں پڑی رہ جاتی ہیں) ۔۔۔ شاید اسی لیئے بیوٹی پارلر سے واپس آئی کوئی دلہن کھل کر کبھی ہنسنے یا بلبلا کر رونے کا رسک نہیں – بیوٹی پارلرز میں کئے میک اپ کا ایک عجیب پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں ہاتھوں میں بڑے بڑے ناخن بھی چپکا دیئے جاتے ہیں کہ گویا کسی خونی مقابلے کی تیاری کے لئے چڑیل سےمستعار لیئے ہوں جوکہ حفاظت خود اختیاری کا سنگین ہتھیار معلوم ہوتے ہیںمختصراً یہ کہ کسی بیوٹی پارلر میں تعمیر کردہ یہ سارا نازک سا عروسی رنگ محل ہرآن یوں لگتا ہے کہ جیسے اب گرا کہ تب گرا ۔۔۔ اور اسی کو سنبھالنے سنبھالنے میں وقت پر لگا کر اڑ جاتا ہے(سید عارف مصطفی)