be rooh Pakistani drame

بے روح پاکستانی ڈرامے۔۔

تحریر: نادر شاہ عادل۔۔

کیا پاکستانی ڈرامہ کی روح مردہ ہوچکی ہے؟ کیا ڈرامے عورت، رومانس، حسن و رعنائی اور مکالموں کی آوارگی کے سحر میں کھوگئے ہیں؟ پھر یہ کہ ڈرامہ میں مضمر عوامی میسیج کیا ہے؟ کھردری حقیقت اور وسیع سماجی و سیاسی اور معاشی زمینی حقائق ڈرامے کی تھیم کیوں نہیں بنتے؟ ایک نسوانی بدتہذیبی کو کیوں فن اداکاری کی تخلیقی قدر وقیمت کے طور رسم آشنائی کا سامنا ہے؟ یہ خوبصورت گھر، گاڑیاں، دیدہ زیب چہرے، زلفیں، جھوٹا کلچر، رومانی مناظر، غیر حقیقی کرداروں کے ذریعے قومی شناخت کی ملمع کاری کا کاروبار کس لیے؟

چینلز پر متعدد یکساں موضوع اور مکالموں کی چربہ سازی عروج پر ہے۔ کئی ڈراموں میں کردار اور مکالمے چوری کیے جارہے ہیں۔ ایک ہی بات بیک وقت مختلف ڈراموں میں کہی جاتی ہے، شاید نصاب بھی چوری کا ہے۔ جو ڈرامے پیش کیے جارہے ہیں وہ جمالیاتی بے راہ روی کا اٹھتا دھواں ہے۔ ابھی ڈرامہ نے انگڑائی لی ہے، ہیرو کے ہاتھ محبوبہ کے شانے تک آئے ہیں۔

 یہ کن قلعی گروں نے ڈراموں کے منہ پر کالک ملی ہے۔ انہیں تو پاکستانی ٹی وی ڈرامے کو چمکانے کی ذمے داری دی گئی تھی۔ ڈراموں میں یہ دلکش گھر، محلات جیسے مکانات ہماری جھونپڑیوں کو کیوں کھا گئے ہیں۔ متوازی ڈرامہ کیوں کچل دیا گیا ہے۔ ہمارے ڈراموں میں آج کل انڈین فلموں جیسے رقص و اداؤں کی شروعات ہوئی ہے۔ چند سپر ہٹ ڈراموں کے نام پیش ہیں، ان میں دیوانگی، مہر پوش، راز الفت اور تمنا کو چشم تماشا سے دیکھ رہا ہوں۔ گزشتہ شب کسی نئے ڈرامے کا ٹریلر دیکھا تو شرم سی آئی۔ توقع یہ تھی کہ پاکستانی ڈرامہ پی ٹی وی ڈرامے کی روایت کو فروغ دے گا، لیکن سیاسی پولرائزیشن کے ساتھ ہی اظہار کی تمثیلی خرافات نے اسکرپٹ، اداکاری اور موضوع کی فرسودگی اور آوارگی نے قوم کو مایوس کیا ہے۔ ایک طرف سیاست دانوں نے قوم کو بے منزل کردیا اور دوسری جانب ٹی وی ڈراموں میں علم، فکر، سوچ، تخلیق اور حقیقت پسندی کی جگہ گڈے گڑیا کی دلربا کہانیوں نے زور پکڑلیا۔

ماہرینِ فن اداکاری اور ڈرامے کو سماجی آئینہ کہتے ہیں۔ لیکن ڈرامہ نویس خود ہی اسکرین کی عورت کو دو ٹکے کی عورت کا نام دیتے ہیں۔ ایک وقت تھا پی ٹی وی ڈرامے کے اسکرپٹ میں کوئی اخلاق سے گرا ہوا لفظ شامل نہیں ہوتا تھا۔ لسانی شائستگی کی روایت نے ٹی وی ڈرامے کو پاکستانی فلم سے الگ چیز بنایا تھا۔ فلم اور ٹی وی کے اداکار دو الگ شخصیتوں کے مالک تھے۔ ٹی وی ڈراموں میں اداکاری اور ریاکاری کا فرق واضح تھا۔ اداکاری بے ساختہ ہو اور موضوع انسان گیر اور آفاقی ہو تب ہی انسان ایک پیغام کی خاطر ڈرامے کو فنون لطیفہ میں اہمیت دیتا ہے۔ مجھے منفرد اداکار طلعت حسین نے مارلن برانڈو کی فلم میں مافیا ڈان کے مرکزی کردار کی جزئیات کی سحرانگیزی سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ برانڈو کی ٹانگوں کی لڑکھڑاہٹ اور ہاتھ سے بلی کے نرم وگداز بالوں کو سہلانے میں اداکاری بولتی نظر آتی تھی۔ میں پاکستانی اداکاروں سے مارلن برانڈو کی توقع نہیں رکھتا۔ رکھنا بھی بے وقوفی ہے۔ مگر کوئی ہے جس نے آج تک فلم بیکٹ اور لارڈ جم میں پیٹر اوٹول جیسی اداکاری کا سوچا ہو۔

کہتے ہیں دنیا آگے جاچکی ہے، گلوبلائزیشن نے نگاہ کو آفاقی بنادیا ہے تو اداکاری کو کیوں حسیناؤں اور وجیہہ ہیروز نے محبت کی دیوانگی سے دوچار کردیا ہے۔ ڈرامے آج کے پاکستان کی معروضیت سے دور کیسے چلے گئے۔ کیا ہم آج بھی نوٹنکی دور میں جی رہے ہیں؟

ستر کی دہائی میں انگریزی فلم بن حر دیکھی تھی، بلکہ بار بار اسے نیٹ پر دیکھا۔ اس کے سارے شعبوں کو الگ الگ وقت میں تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیتا رہا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ اگلے سو سال تک بن حر جیسی دوسری فلم اس پائے اور معیار کی فلم بین نہیں دیکھ سکیں گے۔ جیسے آرسن ویلز کی کلاسک فلم ’سٹیزن کین‘ کا معاملہ ہے۔ وہ انمول فلم کہی جاتی ہے۔ ایک عہد آفریں فنکار آرسن ویلز نے بنائی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن لاکھ کوشش کرے، مشینیں اداکاری کی موت کا پروانہ جاری نہیں کرسکتیں۔ اداکاری ایک پرمسرت کرب و آگہی کا فن ہے۔ اداکاری احساسات کی دنیا ہے۔ پاکستانی ڈرامے کو عالمی ورلڈ ویو کے ساتھ چلنا چاہیے۔ زلف و رخسار کی غلامی سے جان چھڑانے کے دن ہیں۔ اداکار، ہدایتکار اور پروڈیوسرز یو ٹرن لیں۔ نئی بات کہیں، نیا لہجہ اور نئی اداکاری کی بنیاد ڈالیں۔ اداکار تو محسوسات کی دنیا سجاتا ہے مگر وقت نے فرق کی دیوار قائم کردی ہے۔ کل کا اداکار اپنی قوت تخلیق پر بھروسہ کرتا تھا۔ ہدایتکار اپنے کیمرہ مین کے ساتھ پوری فلم بناتا تھا۔ اسے ویژول ایفیکٹس اور دیگر مناظر کےلیے ڈیجیٹل سہولتیں حاصل نہیں تھیں۔ دی برتھ آف اے نیشن کے ہدایتکار ڈیوڈ وارک گریفتھ نے جب پہلا کلوز اپ لیا تو لوگ حیران رہ گئے تھے، لیکن وہ فلمی دنیا کا پہلا انقلاب آفریں تجربہ تھا۔ جدید دور میں بن حر کا ری میک بھی تیار ہوا تھا۔ وہ ماضی کے بن حر کا درست چربہ بھی نہیں تھا۔ میرا دوسرا یقین یہ ہے کہ بن حر جیسا غیر معمولی اسکرپٹ بھی لکھا نہیں جاسکا۔ مگر بن حر ایک کلاسیکی فلم رہے گی۔

آپ حیران نہ ہوں۔ دنیا میں یوں تو بہت ہی خوبصورت فلمیں بنی ہیں، نجی چینلز نے اچھے ڈرامے بھی تیار کیے ہیں، مگر کم۔ لیکن اب آرٹ کے نام پر سوداگری ہورہی ہے۔ جسم اور چہروں کی مرضی کا ’’گیم آن ہے‘‘۔ اب میں آپ کو چونکانا چاہتا ہوں۔

میں نے چینلز کے چار ڈراموں کا حوالہ دیا ہے، ڈرامے تو بہت سے ہیں، افراط و تفریط ہے۔ لگتا ہے پوری قوم ڈرامے دیکھنے اور خواتین ڈرامے لکھنے میں مصروف ہیں۔ لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ڈرامے اداکاری کے نام پر سماجی حقیقت پسندی سے کوسوں دور نکل گئے ہیں۔ ان کی کل کائنات چند حسین خواتین، ان کے شرمناک معاشقے، بیک وقت مرد و زن کے مشکوک تعلقات، عورت کے ہمہ جہت استحصال میں کمال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ڈرامہ محض چند حسین عورتوں، رومانس کےلیے حاضر خوبصورت ہیروز کے گرد گھومتا ہے۔ ماں باپ کے کردار ہیرو اور ہیروئن کی رومانی کشمکش میں ایک طفیلی اور مجبور رولز کے ڈور میں بندھے ہوئے ہیں۔ کسی ڈرامے میں ایک آزاد خیال لڑکی رشتوں کو چیلنج کررہی ہے۔ والدین اسے یونیورسٹی میں پڑھائی کےلیے بھیجتے ہیں اور وہ محترمہ سی ویو پر رات گئے تک سالگرہ مناتی ہے۔ ایک کروڑ پتی طالب علم کے دام الفت میں گرفتار ہوکر باپ سے بغاوت اور رسم ورواج کو سلطان راہی کے انداز میں ٹھوکر مارتی ہے۔ ایک ڈرامے میں مسیحا، صحافی اور سیاست کو بکاؤ مال کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ کوئی احتجاج نہیں کرتا۔ ایک ڈرامہ تو نازک ازدواجی تعلقات کو بے دھڑک پکچرائز کرتا ہے۔

زبان و دہن کی جو مٹی پلید ہورہی ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔ وہ الفاظ جو کسی صنف نازک کے لہجے کا حصہ بننے میں تہذیب شکن سمجھے جاتے تھے وہ آج معمول کی بول چال ہے۔ ایک وڈیرا جامعہ کی طالبہ کو گن پوائنٹ پر اغوا کرکے اس سے خفیہ شادی رچا لیتا ہے اور پہلی بیوی کی مستقل توہین پر پورے ڈرامے کی بنیاد استوار کی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیا پاکستانی مین اسٹریم ڈرامہ کس لیے تاجرانہ سوداگری کی علامت ہے؟ اس کا مرکزی خیال ایک رومانس اور بے منزل آوارگی سے مشروط ہے۔ کیا پاکستان کا سماج اس قدر الٹرا ماڈرن بن چکا ہے کہ بنت حوا کی زندگی، اس کی سوچ، اس کی دانش اور اخلاقی اور فکری عروج کسی سوپ اوپیرا کے گورکھ دھندے سے زیادہ نہیں۔ وہ پاکستانی لڑکی کہاں چلی گئی جو پی ٹی وی ڈرامہ میں زبان، تہذیب، انسان دوستی، حیا اور نسوانیت کے بے داغ رشتوں کی آبیاری کرتی تھی۔ وہ منظور قریشی کہاں ہے؟ روحی بانو کیوں راندہ درگاہ ہوئی؟ خالدہ ریاست کسے یاد ہے؟ نیلوفر عباسی کی بے ساختہ اداکاری ہم بھول گئے؟ ہمارا بانو قدسیہ کا ہیرو کدھر خرافات کے جنگل میں بھٹک گیا؟ کہانی نویس بے فیض کہانیاں لکھ کر قوم کا وقت، ذہن، سوچ اور شخصیت کو کیوں ملیامیٹ کررہے ہیں؟

ان کے اس بیانیہ کی کچھ تو لاج رکھنی چاہیے۔ فیض صاحب تو ایک ایسی پاکستانی ہیروئن اور ہیرو کا خواب دیکھتے رہے جو ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ کے نعرے کو لے کر اسکرین پر طلوع ہونے کی منتظر تھی۔ یہ سوچنے والی پاکستانی لڑکی کب ہمارے ڈرامے کی مرکزی کردار بنے گی۔ کیا امجد اسلام امجد، حسینہ معین، نوری الہدیٰ شاہ، اصغر ندیم سید کے ڈرامے لکھنے پر پابندی ہے؟ یاد کیجیے ایک مڈل کلاس لڑکی ایک کروڑ پتی کو دل دے بیٹھی۔ پھر اس نے ماں باپ کی تربیت اور سماجی و فکری و علمی قدروں سے بغاوت کردی۔ اپنی چھوٹی بہن کو جھوٹ کی ٹریننگ دی، ارتضیٰ حسن کی محبت کے کنویں میں چھلانگ لگانے پر تیار ہوگئی۔ کیا ایسی ماڈرن ازم کی ضرورت ہے؟ اسی ڈرامے کا مکالمہ تھا کہ امی جی میں ابو جی کی پابندیوں اور سختیوں کو ارتضیٰ کی محبت پر قربان نہیں کرسکتی۔ واہ قربانی کی کیا اعلیٰ مثال پیش کی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ نجی ٹی وی پروڈیوسرز اور ہدایت کار و اسکرپٹ رائٹرز کوئی بڑی فکر، تحیر خیز اداکاری، سماجی پیغام، زمینی حقائق اور زندگی سے قریب تر معروضیت نام کی کوئی چیز پیش کریں۔ ڈرامہ میں مذہب استحصال کی روش مناسب نہیں۔ ریٹنگ سے بالاتر رہنا چاہیے۔ مجھے آج تک روسی نژاد ہدایت کار رچرڈ بولسلیوسکی کی کتاب اداکاری کا یہ فقرہ یاد آتا ہے ’’مجھے ضروت ایک ایسے اداکار کی جو جرمن اور فرانسیسی رومانویت میں فرق کی نشاندہی کرے‘۔ لیکن عہد حاضر کی میڈیا بردار چالاک چڑیلیں جب تک ہمارے اعصاب پر سوار ہیں، ڈرامہ آزادی سے سانس نہیں لے سکے گا اور فکری آوارگی پھیلاتا رہے گا۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں