تحریر: عادل پرویز۔۔
صحافتی اداروں میں تنخواہیں نہ ملنے کی جب بھی بات ہوتی ہے ۔ تو صرف رپورٹرز، فوٹرجرنلسٹس ، ایڈیٹرزاور کیمرامین کا ذکر ہی ہوتاہے۔ لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ٹیکنیکل سٹاف جو کہ این ایل ایز اور سٹیلائیٹ انجنیئرز ، ڈرائیورزجبکہ ہیلپرز جو کہ کچن، صفائی ستھرائی کاکام سنبھالتے ہیں بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ اور یہ لوگ صحافیوں سے ذیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بیشتر ہیلپرز کی تنخواہ آٹھ سے بارا ہزار کی درمیان ہوتی ہے۔ ایک طرف تنخواہ نہیں ملتی اور دوسری جانب بعض صحافیوں کے تلخ جملے مفت میں سننے کو ملتے ہیں۔ جن میں ناک چڑھے ایڈیٹرز اور ایڈمینز سرفہرست ہوتے ہیں۔ کبھی چائے کا مزا نہیں آتا تو کبھی قہوا پسند نہیں، کبھی کھانا ٹھنڈا ملنے کا رونا تو کبھی پانی نہ ملنے کا رنج ، ان کی کڑوی باتوں کی صورت میں ان غریبوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال ڈائیور حضرات کا بھی ہے جو کم تنخواہ میں گرمی سردی بارش طوفان میں پرانی اور کھٹارا نیوز کی گاڑیوں کو بروقت لوکیشن پر لے جانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
تو بات ہورہی تھی تنخواہیں نہ ملنے کی۔ تو یہ مظلوم طبقہ اکثر و بیشتر قرضوں میں دھنسارہتاہے۔ ایک قرضہ اترا نہیں کہ دوسرا چڑھ جاتا ہے۔ اب تو بچوں کے سالانا امتحانات بھی قریب ہیں اورپرانی فیسوں اور نئے داخلوں کے لئے پیسے درکار ہیں۔ لیکن کوئی فریاد سننے والا نہیں۔ ویسے بھی جتنا بندا غریب ہوتا ہے اولاد میں اتنا ہی خود کفیل ہوتاہے۔ اسلئے اخراجات بھی ذیادہ اور قرضے کا بوجھ سر پر۔ دس سے پندرا ہزار میں گھر چلانا کتنا مشکل ہے یہ تو سب کو معلوم ہی ہے اور موجودا حالات میں تو ناممکن ۔۔ کچھ نہ کچھ ادھار اور کوئی پارٹ ٹائم جاب سےچولہے تو جل جاتے ہیں لیکن جو تنخواہ صحافتی اداروں سے ملتی ہے اس کی تاخیر مشکلات سے گھیر دیتی ہے۔ اور ان ملازمین کو تنخواہ کے علاوہ کوئی الاونس بھی نہیں ملتا۔
گذشتہ سال تک جب میں پشاور میں ملک کے سب سے ٹاپ چینل میں کام کرتاتھا تو تنخواہوں کے مسائل نے سر اٹھادیاتھا۔ ایک ڈرائیور نے جب اپنے والد سے مسلسل چوتھی بارکچھ پیسے ادھارمانگےتووالد نے جواب دیا کہ بیٹا اگر میں نے ہی خرچہ دینا ہے تو نوکری کیوں کررہے ہو۔ گھر میں ہی بیٹھ کر ماں باپ کی خدمت کرو۔کوئی خود بیمار تو کسی کی بیوی، کسی کا بچہ تو کسی کے والدین ، جیب میں پیسہ نہ ہوتو ڈاکٹر کے کلینک میں گھس بھی نہیں سکتے ۔ سرکاری اسپتالوں کا حال تو سب کےسامنے ہے۔ جہاں علاج تو سفارش پر ہوجاتا ہے لیکن ادویات تو خریدنی ہی ہیں۔
اور پھر قرض لیں بھی تو کس سے دفتر میں تو کسی کی تنخواہ آئی نہیں اور جو صاحب حیثیت ہیں وہ اور کتنااور
کس کس کو قرض دیں؟؟(عادل پرویز)۔۔