be naam mazloom

بے مذہبی سچے لوگوں کا دیس

تحریر: عادل پرویز۔۔

رشتوں کے احترام سےزیادہ انسانیت کا احترام، منافقت سے بہتر سچ گوئی، حسد کی بجائے محنت، دن یا رات گدھوں کی طرح کام لگن  ، لیکن ہفتے میں ایک یا دودن اپنے لئے ضرور نکالنا، سودی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہنستے مسکراتے انسان، کبھی کبھار حد سےزیادہ کڑوے لیکن اکثرشہد سے زیادہ میٹھے بھی، رشتوں کااحترام نہ ہونے کے برابر،  مذہب سے بیزار ، شراب سگریٹ میں بھیگے ،بنتے ٹوٹتے رشتے، کم عمری میں جنسی بے راہ روی، کم عمری میں بچوں کی پیدائش سمیت اوربہت  کچھ ، یہ ہے امریکی معاشرہ۔ یہاں بھی لوگ حکومت کو برابھلا کہتے ہیں لیکن ٹیکس وقت پر ادا کرتے ہیں۔ خود میں گمراہ ہیں لیکن قانون کی پاسداری کرتے ہیں ۔ پویس کا احترام تو نہیں البتہ خوف ضرور ہے۔ اسی لئے ٹریفک سمیت دیگر قوانین کا احترام لازمی ہے۔ یہاں سوری اور تھینکس جیسے الفاظ ہر وقت سننے کو ملتے ہیں۔ ہیلو ہائے کا موڈ نہ ہوتو چہرے پر پھیکی مسکراہٹ ضرور ہوتی ہے۔ صبح جلدی اٹھتے، ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا تقریبا اسلامی وقت کے مطابق ہوتا ہے۔ زیادہ تر نوجوان نسل کے کم عمری میں ہی بچے ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سیکس سے متعلق آگہی اور احتیاط کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی رشتے کم عمری میں ہی جڑجاتے ہیں۔ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ بدلتے ہیں وہیں طلاق اور پھر شادی بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن علیحدگی یا طلاق کے باوجود بچے کی پرورش میں کوئی کمی نہیں آنے دی جاتی۔ مائیں کام کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش اور باپ علیحدگی کے باوجو اپنی اولاد سے ملنے ضرور آتے ہیں۔ اسے بھی چاہے قانون کا احترام یا خوف کہا جاسکتا ہے۔

یہاں گھنٹوں کے حساب سے ہفتہ وار یا دو ہفتہ بعد تنخواہ دی جاتی ہے۔ کچھ لوگ ماہانا تنخواہ پر بھی کام کرتے ہیں۔ نوکریوں کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن جتنا بھی کمالو کم ہے۔ یہاں گھر، گاڑی ، موبائیل فون اور دیگر مہنگا سامان قسطوں پر سود پر مل جاتا ہے۔ وقت پر پیسوں کی ادائیگی پر رفتہ رفتہ قرض کم ہوجاتاہے۔ یہی فنانس سسٹم کہلاتاہے۔ بہت سے اس دلدل میں کئھ سالوں سے پھنسے ہیں۔ عمریں گزر گئیں لیکن قرضے ختم نہیں ہوئے۔ امریکہ میں پیدا ہونے والا چوبیس سالہ نوجوان اپنے والدین کے بعد اب ان کا قرض چکانے کےلئے دن رات محنت کرتا ہے۔ تو دوسری جانب دو کم عمر بھائی اٹھارہ سال کی عمر سے اپنا گھر خریدنے کےلئے محنت کرتے ملے جو  ماں کےلئے گھر بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے جوڑے بھی ملے جو علیحدگی کے باجود ایک ہی چھت کے نیچے رہ رہے ہیں کیونکہ گھر قرض پر ہے اور دونوں کو ابھی پندراسال مزید قرض ادا کرنا ہے۔ یہاں چڈی بنیان سے لے کر گھر سب کچھ قسطوں میں ملتا ہے۔ ہاں البتہ آغاز کرنے والوں کے لئے قرض کی شرح بہت ذیادہ ہوتی ہے۔ لیکن انکار نہیں کیاجاتا۔

    یوٹا امریکہ کی اہم سٹیٹ ہے۔ “ سالٹ لیک سٹی “ مشہور مقام ہے۔ یہ ٹھنڈا علاقہ سال کے طویل عرصہ برفباری اور بارش رہتی ہے۔ لیکن زندگی نہیں رکتی ۔ برفباری کی صورت میں فورا سٹکیں ٹریفک کےلئے کھول دی جاتی ہیں۔ جبکہ گھروں کے سامنے یا اطراف سے پیدل چلنے والوں کے راستے صاف کرنا مالک جائیداد کی ذمہ داری ہے۔ جسے وہ نبھاتے ہیں۔ کیونکہ کوئی راہ گیر ہیدل یا سائیکل پر جاتے ہوئے برف یا باتش کے پانی سے حادثہ کاشکار ہوا تو جرمانہ مالک جائیداد کو ہوتا ہے،

چونکہ میں یوٹا سٹیٹ میں ہوں اسلئے یہاں سے واقفیت کسی حد تک ہے۔ “ یوٹا “ امریکہ کی مذہبی سٹیٹ مانی جاتی ہے۔ عیسائی مذہب کے مورمنز یہاں مضبوط ہیں۔ ہر علاقہ میں مورمنز گرجا گھر ہیں۔ جہاں آنے والوں کی کمی نہیں۔ کیتھڈرل اور کرسچن بھی یہاں رہتے ہیں۔ چونکہ امریکہ ہے اسلئے یہاں آپ کو دیگر مذاہب کے لوگ بھی وافر تعداد میں ملیں گے۔ لیکن امریکی معاشرے میں زیادہ تر نوجوان نسل مذہب سے دور ہے۔ ایک نوجوان سے پوچھا کہ مذہبی کیوں نہیں ؟ تو بولا “ مرنے کے بعد پتا چل جائیگا کہ ہمارے ساتھ کیاہوگا۔ فی الحال زندہ ہیں تو مذہب کی کیا ضرورت”۔ اس نسل کی زباں سے اچھے الفاظ سے زیادہ غلیظ گالیاں نکلتی ہیں جو ان کی روز مرہ بات چیت کا حصہ ہے۔ سولہ سال کی عمر سے یہاں کام کی اجازت مل جاتی ہے، ڈرائیونگ لائسنس بھی مل جاتا ہے۔ لیکن زیادہ تر اٹھارا سال کی عمر میں کام شروع کرتے ہیں اور ماں باپ سے علیحدہ زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اکیس سال کی عمر سے شراب نوشی شروع کی جا سکتی ہے۔ اکیس سال سے کم عمر نوجوانوں کو کہیں بھی شراب نہیں بیچی جاتی۔ سکولوں کا یونیفارم نہیں البتی سلیبس ایم ہی ہے۔ بچے کی والدین کسی بھی شہر منتقل ہوجائیں کوئی مسئلہ نہیں سکول بدلا جاسکتا ہے کیونکہ ایک ہی نصاب ایک ہی وقت میں پڑھایا جارہاہوتاہے۔ ہراسمنٹ کے قوانین نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد بھی سختی سے ہوتاہے۔ کسی کے ساتھ ہاتھا پائی تو دور کی بات اگر سخت الفاظ بھی کئے تو نوکری سے گئے۔ نوک جھونک کی تو معافی ہے لیکن اگر کسی پر ہاتھ اٹھادیا تو پھر کوئی معافی نہیں ۔ چاہے آپ بہترین ورکر ہو نوکری سے فارغ کردیا جاتاہے۔ بے گھر زیادہ تر شہری  علاقوں میں نظر آئیں گے۔ ان بے گھر افرد کو ہوم لیس کہاجاتا ہے جو ڈاون ٹاؤن میں ادھر ادھر بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ جن میں بڑی تعداد نشے کے عادی افراد کی ہوتی ہے۔ ان میں کچھ لوگ خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ اسلئے ان سے نرمی برتی جاتی ہے۔ پیسے یا پھر کھانا بھیک میں مل جاتا ہے۔یہاں کے ڈاکٹر پاکستانی ڈاکٹروں سے بڑے قصائی ہیں۔ اسلئے فٹ رہنے کےلئے ملٹی  وٹامنز اور درد کی گولیاں روزمرہ استعمال کی جاتی ہیں۔ جو آسانی سے سستی مل جاتی ہیں۔ ہیکتھ انشورنس ہوتو ڈاکٹر کی فیس کسی حد تک کم ہوجاتی ہے۔ گاڑی چلانے کے لئے  لائسنس کے ساتھ   کار انشورنس بھی لازمی ہے۔ تاکہ حادثہ کی صورت میں نقصان سے بچا جاسکے۔

   یہ امریکی معاشرے کی مختصر سے خوبیاں اور برائیں تھیں۔ شاید میرا تجزیہ سےکچھ لوگ اختلا بھی کریں کیونکہ مختلف اسٹیٹس میں مختلف لائف سٹائیل ہے۔ لیکن چند باتیں مشترکہ ہیں ۔ جن میں سودی نظام، گھنٹہ وار تنخواہ اورویک اینڈ انجوائے کرنا۔

   ٹائم  کے حساب سے تنخواہ دینے کا نظام پاکستان میں رائج ہوتو ملک بہتری کی جانب جاسکتا ہے۔  بالخصوص سرکاری اداروں میں یہ نظام رائج ہوتو کوئی سرکاری ملازم جمعہ کو نہ جلدی گھر جائے اور نہ پیر کو تاخیرسے دفتر پہنچے۔ امریکہ میں لوگ بیماری سے بچتے ہیں کیونکہ بیمار ہوئے توچھٹی اور چھٹی کے دنوں میں  تنخواہ نہیں ملتی۔ اگر یہ مظام پاکستان میں رائج ہو تو بیماری کا بہانہ بناکرلمبی چھٹی لینے والاسسٹم  بھی ختم ہوسکتا ہے۔ یہاں ہر ایک ورکر کی شکایت پر منیجر کو برطرف کیاجاتا ہے اور ورکرز سے ہمہ وقت بہتری اوراصلاح کے لئے مشورے کی امید لگائی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ ورکر یا مزدور ہی بنیاد ہیں جن کی تعلیم  تو کم لیکن تجربہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنا کام کرتا ہے۔ دوسرے کی زندگی میں دخل اندازی کا وقت نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے ملک میں اپنی زندگی کے علاوہ ہر کسی کی زندگی میں دخل اندازی کا وقت ہوتا ہے۔ یہاں خوبصورت لڑکی یا لڑکا کسی کا ہوجائے تو رشک ضرور کرتے ہیں لیکن بددعا نہیں دیتے لیکن جوڑی ٹوٹتے ہی لائن  ضرور ماری جاتی ہے وہ بھی تہذیب کے دائرے میں ۔۔

وائیٹ کالرجاب کے علاوہ کسی نوکری میں بھی کرسی ٹیبل کا روج نظر نہیں آتا۔ کیا افسر اور کیا لیبر سب بھاگتے دوڑتے نظر آئیں گے۔ میرٹ پر سب کی کارکردگی جانچی جاتی ہے۔ کپڑے صاف پہنے ہیں یا گندے سب سے رویہ ایک جیسا ہوتاہے۔ قانون لاگو کیا جاتا ہے عملدرآمد کے لئے کوئی خاص اقدامات یا سختی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ جرمانے کا خوف رہتا ہے۔ سال ختم ہوتے ہیں ٹیکس ریٹرنز جمع کرائے جانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جو آن لائین اور نجی دفاتر میں مدد حاصل کرکے جمع کئے جاتے ہیں ۔ اگر ٹیکس ریٹرنز جمع نہ ہوئیں تو جیل کی ہوا کھاسکتے ہیں۔

موٹاپا یہاں بہت ہے لیکن یہ کمزوری یا احساس کمتری کا باعث نہیں۔ یہاں موٹے لوگ بھی صحت مند لوگوں کی طرح ہی بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں آپ صحت مند ہو، کمزور ہو، موٹے ہو کالے ہو گورے یا براؤن ، خوبصورت ہو یا بدصورت ،، کام سب کو ایک ہی جیسا کرنا پڑتاہے۔ کام کی بنیاد پر ہی ترقی ملتی ہے۔ پسند ناپسند کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا چانس کم ہی نظر آتاہے۔ اگر آپ نے اپنا کام وقت سے پہلے مکمل کرلیا تو بناء احسان جتائے دوسرے کی مدد کرنا ہوتی ہے۔

ایک اور قوم بھی یہاں بستی ہے جو ہم پاکستانیوں کی طرح ہے۔ یہ میکسیکن ہیں۔ جو ہماری طرح ہر سخت اور محنت طلب کام آسانی سے کرتے ہیں ۔ عورت ہو یا مرد دن رات کام کرتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر نہ صرف اپنے بلکہ اپنے ملک میں رہ جانے والے رشتہ داروں کی کفالت بھی کرنا انہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان کے مرد قابل اعتماد نہیں لیکن خواتین قابل اعتماد ضرور ہیں۔ اگر آپ ان کی ساتھ کام کررہے ہیں تو کام سیکھنے اور مدد کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ ذیادہ تر میکسیکن صرف سپینش زبان ہی بولتے ہیں اور فیملی سسٹم میں رہتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں پیدا ہوئی نئی نسل اب مختلف ہے جو علحدہ رہنا پسند کرتی ہےاور مذہب سے دور ہے۔ میکسیکن دھوکہ دہی اور منشیات فروشی سےبھی جانے جاتے ہیں۔۔ہزاروں یا شاید لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی یہاں اسائیلم لئے ہیں۔ کیسز کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ سیاسی پناہ کے کیسز نظاہر ذیادہ ہے۔ تاہم خواجہ سراؤں اور اسی قسم کیدیگر غیر اسلامی شادیوں کے کیسز کی بناء پر بھی پناہ لی جارہی ہے۔ایک دفعہ امریکہ میں پناہ کا کیس دائر کردیا تو دفاع کا بھرپور موقع دیا جاتاہے۔ باقی آپ کی قسمت۔۔ امریکا میں قدم قدم پر  عیاشی کے مواقع بھی ملتے ہیں لیکن عقلمند وہی جو اپنی محنت کی کمائی اپنے خاندان یا   ضرورت مندوں پر خرچ کرے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ میرے اس تجزیہ سے اختلاف کریں ۔  لیکن میں  نے جواپنی نظر سے دیکھا اور محسوس کیا وہی لکھ دیا۔(عادل پرویز)۔۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں