تحریر: جاوید چودھری۔۔
میرے ایک قریبی دوست آج کل عجیب نفسیاتی مسئلے کا شکار ہیں‘ یہ باون تریپن برس کے خوش حال بزنس مین ہیں‘ یہ سیلف میڈ انسان ہیں‘ انھوں نے مزدوری سے عملی زندگی کا آغاز کیا‘ ﷲ تعالیٰ نے کرم کیا اور انھوں نے کروڑوں روپے کمائے‘ یہ اب اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں رہ رہے ہیں‘ ان کا لمبا چوڑا بزنس ہے‘ اچھا خاصا بینک بیلنس ہے اور یہ پاکستان کی سیاسی قیادت کے مجموعی ٹیکس سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں‘ یہ صحت مند بھی ہیں‘ خوب صورت بھی ہیں اور اسمارٹ بھی‘ انھیں کپڑے پہننے اور رہنے سہنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔
ﷲ نے انھیں نیک اور صالح اولاد سے بھی نواز رکھا ہے اور یہ خود بھی ٹھیک ٹھاک نیک انسان ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا دنیا سے دل اچاٹ ہوگیا ہے اور یہ باون سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو جانا چاہتے ہیں‘ یہ بار بار کہتے ہیں میں نے زندگی میں جو دیکھنا تھا دیکھ لیا مجھے اب دنیا سے پردہ کر جانا چاہیے‘ یہ اس فیلنگ کے دوران شدید ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ فون بند کرتے ہیں اور انپے دفتر کے صوفے پر لیٹ جاتے ہیں یا پھر گھر کے بیسمنٹ میں قید ہو جاتے ہیں‘ یہ بے مقصدیت کا شکار ہیں‘ ان کی زندگی بے رنگ ہو چکی ہے اور اب انھیں دنیا کی کسی چیز میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی‘ ﷲ تعالیٰ کا ان پر خصوصی کرم ہے‘ یہ مذہبی انسان ہیں کیونکہ اگر یہ مذہبی نہ ہوتے یا پھر زندگی میں ان کا ایک آدھ ایسا دوست نہ ہوتا جس کے سامنے یہ ہر قسم کی بات کر سکتے ہیں تو یہ اب تک خودکشی کر چکے ہوتے۔
یہ اس ملک میں اس فیلنگ‘ اس صورت حال کے اکیلے شکار نہیں ہیں‘ ہم میں سے نوے فیصد لوگ ایسی ہی صورتحال سے گزر رہے ہیں‘ ہمارا دل دنیا سے اچاٹ ہو چکا ہے اور ہم مرنے کے بہانے تلاش کر رہے ہیں‘ ہم مرجانا چاہتے ہیں یا کسی کو مار کر مرنا چاہتے ہیں‘ ہمارے غصے کا آغاز عموماً مار دوں گا‘ مر جاؤں گا‘ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا‘ میرا دل کرتا ہے میں اس پر تیل چھڑک کر آگ لگا دوں اور میں پورے ملک کو آگ لگا دینا چاہتا ہوں وغیرہ وغیرہ قسم کے فقروں سے ہوتا ہے۔
ہم روزانہ ایسی درجنوں حرکتیں بھی کرتے ہیں جن سے ہمارے مرنے کے چانس پیدا ہو سکتے ہیں‘ مثلاً ہم زیبرا کراسنگ سے سڑک عبور نہیں کریں گے‘ ہم کسی بھی جگہ عین درمیان سے سڑک پر آ جائیں گے اور سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے دوڑتی گاڑیوں کے درمیان سے سڑک پار کر جائیں گے‘ ہم سڑک پر واک کرنا شروع کر دیں گے‘ ہم جان بوجھ کر ایسی چیزیں کھائیں گے جس سے ہمیں ہیضہ ہو سکتا ہے‘ ہم میڈیکل اسٹور سے دوا خریدیں گے اور اپنا علاج خود شروع کر دیں گے‘ ہم حکیموں کا ہر قسم کا نسخہ آنکھیں بند کر کے کھا جائیں گے‘ ہم سی این جی پر چلنے والی ویگن میں عین سلینڈر کے اوپر بیٹھ جائیں گے۔
ہم وین اور بس سے لٹک کر پچاس پچاس کلو میٹر سفر کر جائیں گے‘ ہم بند پھاٹک سے عین اس وقت گزریں گے جب ٹرین ہم سے چند سیکنڈ کے فاصلے پر ہوگی‘ ہم ڈینگی کی وبا میں چھت پر سوئیں گے اور خود کو مچھروں کے حوالے کر دیں گے‘ ہم جان بوجھ کر گندا پانی پئیں گے‘ ہم لوگ دیسی بھٹی کی وہ شراب پی جائیں گے جس سے ہر سال سیکڑوں لوگ مر جاتے ہیں‘ ہم اپنی نوکری‘ اپنے رزق کو لات ماریں گے اور پورے خاندان کو خودکشی تک لے جائیں گے اور ہم ہر اس احتجاج میں ضرور شریک ہوں گے جس میں سرکاری عمارات کو آگ لگائی جائے گی۔
پولیس پر پتھراؤ ہوگا اور آخر میں پولیس مظاہرین پر گولی چلائے گی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سب خودکشی کے مہذب طریقے ہیں‘ ہم زندگی سے بیزار ہو چکے ہیں چناںچہ ہم میں سے زیادہ بیزار لوگ براہ راست خودکشی کر لیتے ہیں جب کہ باقی مرنے کے مہذب طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں‘ ان میںسے بھی کچھ لوگ کسی ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر اپنی ’’مراد‘‘ تک پہنچ جاتے ہیں اور باقی لوگ میرے اس دوست کی طرح ڈپریشن کا تحفہ لے کر پھرتے رہتے ہیں اور اس خلجان میں دنیا سے رخصت ہونے کا کوئی مذہبی‘ طبی اور سماجی طریقہ تلاش کرتے رہتے ہیں‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے ایسا ہے کیوں؟ ہم سب خودکش کیوں ہیں؟۔
ہمارے ڈپریشن‘ ہماری خودکش سوچ کی واحد وجہ خوشی ہے‘ ہم خوش نہیں ہیں اور خوشی کی کمی انسان کو ہمیشہ موت کی طرف لے جاتی ہے۔ طبی سائنس کہتی ہے دنیا میں خوش رہنے والے مریض انتہائی مہلک امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں جب کہ مایوس اور ناخوش لوگ معمولی نزلے‘ چھوٹی سی چوٹ اور کھانسی کے ہلکے سے حملے کے بعد فوت ہو جاتے ہیں‘ خوشی دنیا کا سب سے بڑا وٹامن ہوتی ہے اور اگر ہمارے پاس یہ وٹامن نہیں تو پھر دنیا کی کوئی چیز ہمیں آسودہ نہیں رکھ سکتی اور یہ وٹامن خوش رہنے کی عادت سے پیدا ہوتا ہے۔
ہمیں اگر خوش رہنے کی عادت نہیں تو ہم یہ وٹامن پیدا نہیں کر سکتے اور یوں ہم دنیا کی تمام سہولتیں‘ تمام آرام پا کر بھی خوشی حاصل نہیں کر سکتے ‘ ہمارے نوے فیصد لوگ اس کرائسس کا شکار ہیں‘ انھیں بچپن سے خوشی کی ٹریننگ نہیں ملی‘ کسی نے انھیں بتایا ہی نہیں ﷲ تعالیٰ نے انھیں دنیا کے انتہائی آئیڈیل وقت میں پیدا کیا۔ انسان آج کے دور میں اپنی نوے فیصد خواہشات پوری کر سکتا ہے‘ یہ دنیا کا امیر ترین شخص بن سکتا ہے‘ یہ دل سے لے کر بال تک ٹرانسپلانٹ کرا سکتا ہے‘ یہ چاند پر جا سکتا ہے‘ سمندر میں دس کلو میٹر گہرائی تک پکنک منا سکتا ہے‘ آج دنیا میں کینسر کا علاج ممکن ہے۔
آپ امیر یا کام یاب ہیں تو پوری دنیا آپ کے لیے کھلی ہے اور آج کے زمانے میں سیاہ فام باشندہ امریکا کا صدر بھی بن سکتا ہے‘ کسی نے انھیں یہ نہیں بتایا ہمیں سب سے پہلے اس چیز کو انجوائے کرنا چاہیے جو ہم حاصل کر چکے ہیں اور اس کے بعد باقی حسرتوں اور خواہشوں کی طرف بڑھنا چاہیے‘ کسی نے ہمیں نہیں بتایا انسان ﷲ تعالیٰ کی واحد مخلوق ہے جو جسم‘ دماغ اور روح کا مجموعہ ہے‘ پودوں اور جانوروں میں جسم اور روح ہوتی ہے، دماغ نہیں ہوتا ،جب کہ فرشتوں اور جنوں کے پاس دماغ اور روح ہے لیکن جسم نہیں‘ ہمارے پاس تینوں ہیں اور یہ تینوں زندہ ہیں اور انھیں روزانہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم جس طرح جسم کو کاربوہائیڈریٹ‘ پروٹین‘ فیٹس‘ وٹامنز اور پانی دیتے ہیں‘ ہم جس طرح جسم کی صفائی‘ ستھرائی اور خوب صورتی کا خیال رکھتے ہیں‘ ہم اسے گرمی‘ سردی‘ بارش‘ چوٹ اور حادثے سے بچاتے ہیں اور ہم جس طرح اس کا علاج معالجہ کرتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارے دماغ‘ ہماری روح کو بھی علاج معالجے‘ نگہداشت اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم جس طرح جسم کو خوراک نہیں دیتے تو اس سے ہمارا جسم مرجھا جاتا ہے‘ ہم کم زوری‘ سستی اور بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح جب ہماری روح اور دماغ کو بھی مناسب اور بروقت خوراک نہیں ملتی تو یہ بھی جسم کی طرح بیمار‘ کم زور اور سست ہو جاتے ہیں اور یوں ہماری زندگی سے خوشی اور سکون کم ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے دماغ اور روح کی غذا کیا ہے؟ ہمارے دماغ کو نئے آئیڈیاز‘ نئی معلومات‘ نئی انفارمیشن‘ نیا علم‘ نئی فکر اور نئی رائے چاہیے ہوتی ہے۔
ہمارے ذہن میں روزانہ چار ہزار سوال پیدا ہوتے ہیں اور ہمارا ذہن ہم سے ان کا جواب مانگتا ہے لیکن ہم دماغ کے یہ سوال مسترد کر دیتے ہیں یوں ہمارا دماغ سوالوں کا قبرستان بن جاتا ہے اور قبرستانوں میں کبھی خوشی کی گھاس نہیں اگتی‘ ہمارے دماغ کی خوراک کتابیں‘ گفتگو کے فورمز‘ دانشوروں کے ساتھ بیٹھک‘ ٹیلی ویژن‘ تھیٹر‘ فلم‘ آرٹ‘ ریسرچ‘ آثار قدیمہ کی سیر اور تفکر ہوتی ہے‘ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے ذہن کو یہ خوراک دے رہے ہیں؟ اسی طرح مثبت کام روح کی غذا ہیں‘ دنیا کا ہر مثبت کام روح کی خوراک ہوتی ہے اور دنیا کی ہر منفی سرگرمی ہماری روح کے لیے بیماری۔ دنیا میں مذاہب کو روح کی غذا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کو مثبت سوچ اور مثبت کام کی طرف راغب کرتے ہیں۔
یہ آپ کو غیبت‘ چغل خوری‘ بدتمیزی‘ ضد‘ ہٹ دھرمی‘ لالچ‘ ظلم‘ منافقت‘ طمع‘ کنجوسی اور تنگ دلی سے روکتے ہیں‘ یہ آپ کو فلاح عامہ‘ خدمت‘ برداشت‘ وسعت قلبی‘ سخاوت‘ انسانیت‘ رحم دلی‘ گواہی‘ انصاف اور عبادت کی طرف لے جاتے ہیں اور یہ وہ تمام مثبت سرگرمیاں ہیں جو روح کی وٹامن ہوتی ہیں اور ان سے روح کے اندر سکون پیدا ہوتا ہے اور یہ سکون خوشی بن کر ہمارے چہرے‘ ہماری آنکھوں میں چمکتا ہے لیکن روح کی غذا یعنی مثبت طرز عمل‘ ذہن کی غذا یعنی مطالعہ اور جسم کی غذا یعنی متوازن خوراک کے لیے ٹریننگ چاہیے اور ہم اپنے بچوں کو یہ ٹریننگ نہیں دے رہے چناںچہ ہم میں سے ہر شخص جوانی اور ادھیڑ عمری کے دور تک پہنچ کر پریشان ہو جاتا ہے‘ ہماری زندگی میں بے مقصدیت بڑھ جاتی ہے‘ ہم اداس ہو جاتے ہیں اور یہ اداسی ہمیں خودکشی کی طرف لے جاتی ہے لہٰذا ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی اپنی ذات میں خودکش بن چکے ہیں اور خوشی کے علاوہ ہمیں اس سے کوئی نجات نہیں دلا سکتا۔(بشکریہ ایکسپریس)