تحریر: خرم شہزاد
اپنے بچپن میں ہم سمجھتے تھے کہ درویش ہی سب سے زیادہ بے غرض لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں دنیا داری سے کوئی مطلب نہیں ہوتا اور یہ اپنی ہی ایک دنیا میں مگن رہتے ہیں لیکن بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ درویشوں سے زیادہ بے غرض تو اپنی محبوبہ لگنے لگی ۔ ہمیں یاد ہے کہ زمانہ قدیم میں جو لڑکیاں ہماری محبوبائیں رہ چکی یا کم از کم جن کے بارے میں ہمیں یہ وہم و گمان تھا کہ یہ ہماری محبوبہ ہیں، وہ سبھی نہایت بے غرض تھیں۔ انہیں ہم سے کوئی غرض ہی نہیں ہوتی تھی لیکن ہم سے ہی غرض ہوتی تھی۔ آدھی رات کو بریانی یا برگر کھانے کی غرض، بازار سے کچھ منگوانے کی غرض، سہیلوں کے گھر سے کچھ منگوانے اور بھجوانے کی غرض، امتحانوں میں نوٹس کی غرض۔۔۔ لیکن ان تمام غرضوں کے پیچھے جو ہماری ذات ہوتی ، اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی تھی۔ زندگی گزرتی چلی گئی اور پھر ہماری ملاقات ایک ایسے بے غرض ٹولے سے ہوئی کہ اس کے بعد بے غرضی کا مطلب و مفہوم ہی بدل کر رہ گیا اور شائد باقی زندگی میں ان سے زیادہ بے غرض ہمیں کوئی اور نہ مل سکے۔ اس بے غرض ٹولے کا نام صحافی برادری ہے۔
جس طرح اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ، ویسے ہی صحافی برادری میں بھی بے غرضوں کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی غرض والے لوگ بھی موجود دیکھے، لیکن اگر نہیں دیکھے تو ایسے صحافی نہیں دیکھے جنہیں اپنے کام سے غرض ہویا اپنے آپ سے غرض ہو۔ غرض والے صحافیوں کو عموما صرف اپنی ترقی سے غرض ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے اصولوں اور اپنی محنت کا تھوڑا بہت سودا کر لیتے ہیں اور کوئی نہ کوئی عہدہ پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں غرض کی بھوک بہت بڑھ جائے تو اپنے عزیز و اقارب کو اپنا نام استعمال کرنے اور اوپر کی آمدنی سمیٹنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ بچوں کو کہیں نہ کہیں سیٹل کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سب میں یہ اپنی اصل یعنی صحافت کو ہی بھول جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں پر بہت ترس آتا ہے کیونکہ ان کی اپنی برادری کے لوگ ہی انہیں طنز و تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بدقسمتی سے طنز اور تنقید کرنے والے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود انہی کی طرح اپنا سودا کرنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن انہیں کوئی اپنا خریدار نہیں ملتا۔ ناکام صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے دل کو تسلی دینے کی خاطر دریا کے دوسری طرف کھڑے ہو کر گالیاں دینے اور اپنی ناکامی کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
غرض والے یہ صحافی اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں لیکن باقی سارا آٹا یعنی بے غرض صحافی ہی اس برادی کا اصل اثاثہ ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں عموما یہ آیا ہے کہ ناکام صحافیو ں کو نکال کر باقی تمام بے غرض صحافی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بڑے ہی نمایاں لوگ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو جتنا نمایاں صحافی ہے وہ اتنا ہی بے غرض صحافی ہے۔ ویسے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں فیلڈ رپورٹر اور اینکرہی دو ایسے لوگ ہیں جو نمایاں ہوتے ہیں اور یہی اصل بے غرض لوگ ہیں۔
فیلڈ رپورٹر جب اپنی فیلڈ میں ہوتا ہے تو اس کی بے غرض اپنی انتہا کو پہنچی ہوتی ہے۔ وہ کسی کی بھی پریس کانفرنس میں بے غرض ہو کر سوال پوچھتا ہے اوریہ بھی نہیں سوچتا کہ یہ سوال متعلقہ فیلڈ کا ہے بھی یا نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ اس سوال سے پریس کانفرنس کرنے والے کے دل و جذبات پر کیا گزرے گی۔ اسے موقع مناسب سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ پولیس اور عوام کے تعلقات کی بہتری کے موضوع پر ایک کانفرنس میں جب پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار اپنی فورس کی طرف سے بہت سے وعدے کر رہے ہیں اور بہت سی باتوں کی وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ان تعلقات کی بہتری کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت پر زور دے رہے تھے تب ایک بے غرض صحافی نے سوال کر دیا کہ جناب باقی باتیں چھوڑیں صرف یہ بتائیں کہ آجکل رشوت کا کیا ریٹ چل رہا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار نے ایک نظر صحافی پر ڈالی، ایک نظر کانفرنس بلانے والوں پر ڈالی اور ساتھ ہی یقینا ابھی تک کے کئے وعدوں پر لعنت بھی ڈالی ہو گی لیکن دوسرے ہی لمحے وہ کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے۔ پولیس اور عوام کس قدر ایک دوسرے کے قریب آتے آتے رہ گئے یا اس پولیس والے کی زندگی میں اس سوال سے کیا تبدیلی آئی ، صحافی کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی ۔ واقعی وہ ایک سچا بے غرض صحافی تھا۔ ایسا ہی سچا اور بے غرض صحافی پچھلے دنوں ایک ٹی وی چینل کا کیمرہ لیے لاہور میں روڈ پر ٹریفک پولیس والوں کو روکتا بھی پایا گیا۔ اس سے اگلے دن کتنے صحافیوں کے چالان ہوئے اور ان کی وڈیوز بنائی گئیں اِس سے اُس صحافی کو کوئی غرض ہی نہیں ۔ پرنٹ میڈیا بھی ایسے بے غرض صحافیوں سے بھری پڑی ہے جہاں بے خبر صحافی شام کو کوئی خبر نہ ہونے پر کسی کی ماں بہن بیوی بیٹی کے کسی نہ کسی کے ساتھ بھاگنے کی خبر فائل کر کے اپنے اس دن کی روزی کو حلال کرتے ہیں۔ ان کے علاقے میں کون منشیات بیچ رہا ہے ، کہاں سے مال آ رہا ہے کون لا رہے، چوری کا مال کہاں رکھا جاتا ہے اور کہاں بیچا جاتا ہے، انہیں سب پتہ ہوتا ہے لیکن کیونکہ یہ بے غرض لوگ ہوتے ہیں اس لیے انہیں ان سب سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ بے غرض ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی چائے پتی ہر جگہ لگی ہوتی ہے۔
فیلڈ رپورٹرز کے بعد دوسرے بے غرض اینکر ہوتے ہیں۔ خدا گواہ ہے کہ ان سے زیادہ بے غرض دنیا میں شائد ہی کوئی پاکستان کو نصیب ہوا ہو۔ آجکل چونکہ ریٹنگ کا زمانہ ہے اس لیے اینکرز کی اکثریت کو اپنے پروگراموں میں گرما گرمی دکھانا مجبوری ہوتی ہے۔ اسی لیے پروگرام میں کسی کی پگڑی اچھالی جائے یا ہاتھا پائی ہو جائے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انہیں اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ملکی حالات کس طرح کے ہیں اور ان حالات میں عوام کی کس طرح کی ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ دشمن ممالک نے پاکستان کو کن حالات میں لاکھڑا کیا ہے ، انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہ اپنے پروگرام کے ساتھ سچے اور مخلص ہوتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ ریٹنگ میں وہی سب سے اوپر رہیں۔یہ لائیو پروگرام میں ملک دشمن عناصر کو لائیو کال پر بھی لے لیتے ہیں ، کہیں بم دھماکہ ہونا ہو تو آدھا گھنٹہ پہلے انہیں میسج بھی مل جاتا ہے لیکن کیونکہ انہیں کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی اس لیے موبائل ایک طرف رکھ کر قیلولہ کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ حلال وحرام اور عزت بے عزتی سے تو ایک فیلڈ رپورٹر بے نیاز و بے غرض ہوا ہوتا ہے یہ اینکرز تو اس سے بہت اوپر کی مخلوق ہوتے ہیں۔ یہ کردار سے بھی بے غرض ہوتے ہیں۔ملک ریاض ہو یا کوئی اور، وہ ان کو دی گئی رشوت بمعہ بینک اکاونٹ اور بنگلہ نمبر کے بتا رہا ہوتا ہے لیکن بے غرض لوگوں نے کبھی ایسی کسی بات پر کوئی کان نہیں دھرا۔ جب لے ہی چکے ہیں تو اب کان دھرنے کی کیا ضرورت بھلا۔ کوئی بھی حادثہ ہو گیا ، آپ زندہ بچ گئے تو یہ پروگرام کر لیں گے، آپ مر گئے تو یہ پھر ایک پروگرام کر لیں گے۔ آپ کی زندگی موت تک سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔اپنا پے پیکج چینل پر سب سے بڑا انہیں چاہیے ہوتا ہے لیکن اسی چینل پر پانچ سو لوگوں کو تین تین ماہ سے تنخواہ نہ ملے ، انہیں کوئی غرض ہی نہیں ہوتی۔ بے غرضی کی انتہا ہیں یہ لوگ کہ ملک و ملت، دین ، کرداراور لوگوں کی زندگیوں تک سے یہ بے غرض ہوتے ہیں ، ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں بھلا۔۔ صرف اور صرف پاکستان کے میڈیا میں مل سکتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی ہر بات کا آغاز شیطان سے پناہ مانگ کر کر تے ہیں اور شیطان انہیں پناہ دے بھی دیتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ہم جیسے کم ظرف ان بے غرض اور مٹے ہوئے لوگوں کے اہل نہیں ہو سکتے اس لیے یا ہمیں امریکہ و یورپ میں کسی طور سیٹل ہونے کا موقع مل جائے یا پھر پاکستان کی پاک دھرتی کو ان سے نجات مل جائے۔
نوٹ:۔ سچے صحافیوں سے بھی معذرت نہیں کیونکہ انہوں نے بھی اپنی صفوں سے یہ گند نکالنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔(خرم شہزاد)