تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اوٹ پٹانگ کچھ ایسی باتیں کرنے کا دل ہوتا ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا، جس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، جس کے پس پردہ کوئی کہانی نہیں ہوتی۔۔ بس دل چاہتا ہے ہلکی پھلکی گپ شپ ہو جائے اور چہرے مسکرا جائیں۔۔ ورنہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ٹی وی کھولیں تو ٹینشن، اخبار پڑھیں تو ٹینشن، نائی کی دکان پر جائیں تو ٹینشن، دودھ یا دہی خریدیں پھر ٹینشن، پٹرول پمپ پر ٹینشن، پرچون کی دکان پر ٹینشن، انڈے، مرغی، گوشت لینے جائیں وہاں ٹینشن۔۔ جہاں ہر طرف ٹینشن ہی ٹینشن اور مایوسی سے بھرپور زندگی چل رہی ہو تو ایسے میں ہلکی پھلکی گپ شپ آکسیجن کا کام دیتی ہے اور انسان پھر سے ری چارج ہو جاتا ہے۔۔ چلئے اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔۔ اسے صرف انجوائے کیجئے گا۔۔
استاد نے جب ہماری طرح کے ایک نالائق شاگرد سے پوچھا، الجھن کسے کہتے ہیں؟؟ شاگرد کہنے لگا۔۔ دانت میں پھنس جانے والا گوشت کا ٹکڑا جب باوجود کوشش اور تین خلال تڑوانے کے بعد بھی نہ نکلے اسے الجھن کہتے ہیں۔۔ استاد نے فوری طور پر اگلا سوال کر ڈالا۔۔ اور خوشی؟؟۔۔ شاگرد کہنے لگا۔۔ جب دانت میں پھنسا وہ ٹکڑا اچانک نکل جائے جبکہ آپ ناامید ہو چکے ہوں اس کیفیت کا نام خوشی ہے۔۔ استاد نے کچھ سوچا پھر ایک اور سوال کر دیا۔۔ اور غم و غصہ کی ملی جلی کیفیت؟۔۔ شاگرد جلدی سے بولا۔۔ ایک دانت سے گوشت کا ٹکڑا نکلنے کے بعد اچانک آپ کو معلوم ہو کہ دوسری طرف بھی پھنسا ہے۔۔ استاد نے شاگرد کو گھورا اور پھر پوچھا۔۔ اور جدوجہد؟؟ شاگرد نے برجستہ کہا۔۔ جب آپ دوسرے دانت سے ٹکڑا نکالنے کے لیے خلال یا ماچس کی تیلی اٹھا کر آپریشن شروع کرتے ہیں۔۔ استاد کا تو دماغ ہی گھوم گیا، نالائق شاگرد کو ایک زور کی چپیڑ لگائی اور کہا۔۔ ابے او قصائی کی اولاد یہ دانت اور گوشت سے نکلے گا یا نہیں؟؟ پھر شاگرد سے ایک اور سوال کر ڈالا۔۔ کہنے لگے۔۔ بتاؤ یہ شعر کس کا ہے؟؟ سرہانے میر کے آہستہ بولو، ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے۔۔ نالائق شاگرد کہنے لگا۔۔ سر یہ شعر میر تقی میر کی والدہ کا ہے۔۔ استاد نے چونک کر پوچھا۔۔ کیا، وہ کیسے؟؟ شاگرد نے شعر کا بیک گراؤنڈ بتانا شروع کیا۔۔ جی سر یہ اُس وقت کی بات ہے جب میر تقی میر سکول میں پڑھتے تھے ایک دن ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ سے استاد نے ان کی بہت پٹائی کی جس پر وہ روتے روتے گھر آئے اور سو گئے، تھوڑی دیر بعد میر صاحب کے باقی بہن بھائی کمرے میں کھیلتے ہوئے شور کرنے لگے جس پر ان کی والدہ نے یہ شعر کہا۔۔ سرہانے میر کے آہستہ بولو، ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے۔۔ شاگرد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔ اور جو کوئی کہتا ہے کہ یہ میر تقی میر کا شعر ہے تو وہ غلط کہتا ہے کیونکہ میر تقی میر تو اس وقت سو رہے تھے اور کوئی سویا ہوا آدمی شعر نہیں کہہ سکتا۔۔
اتنا صبح سویرے، بیٹی کے کمرے کو خالی پا کر ماں کا دل ویسے ہی دھڑک اٹھا تھا اور اوپر سے پلنگ پر رکھا ہوا خط۔۔۔ کانپتے ہاتھوں سے اٹھایا، لکھا تھا۔۔ پیاری امی، میں آپ کو یہ بتاتے ہوئے بہت ہی ندامت اور شرمندگی محسوس کر رہی ہوں مگر کیا کروں کہ میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئی ہوں۔ میں اپنے ہم جماعت دوست جمی کے ساتھ جا رہی ہوں۔ اس نے مجھے حقیقی محبت سے آشنا کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں نے تین مہینے پہلے ہی کورٹ میرج کر لی تھی اور خیر سے میں امید کے ساتھ بھی ہوں۔ جمی نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ
مجھے ہمیشہ خوش رکھے گا، ہم دونوں اکٹھے رہیں گے۔ جمی نے مجھے یقین دلایا ہے کہ چرس کوئی خاص نقصان نہیں پہنچاتی اور نہ ہی یہ کوئی پکی عادت بن جاتی ہے۔ فی الحال تو ہم لطف و سرورکے لیے پیتے ہیں، اور اگر دل کیا تو بآسانی ترک بھی کر دیں گے۔ بس پولیس کا دھڑکا لگا رہتا ہے کیونکہ جب سے جمی جیل سے فرار ہو کر آیا ہے تب سے گھر پر روپوش ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح وہ مقتول کے ورثاء سے صلح کر لے تاکہ یہ دھڑکا بند ہو۔۔ پیاری امی، بس چند سال میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو میں آپ سے آپ کے نواسے نواسیوں کو ملوانے آؤں گی۔ مجھے آپ کی یاد ہر دم آتی رہے گی۔۔۔ خط کے آخر میں نوٹ بھی تحریر تھا۔۔۔ نوٹ: امی جان، میں آپ سے مذاق کر رہی تھی، میں گھر کی چھت پر ہی ہوں، میں بس آپ کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ ہماری زندگی میں اس سے بُرے حالات و واقعات پیش آ سکتے ہیں بس امتحانوں کا رزلٹ ہی سب سے بُرا اور سب سے بڑا سانحہ نہیں ہوا کرتا۔ امی جان، رزلٹ آ گیا ہے اور میں فیل ہو گئی ہوں، اگر کہو تو چھت سے نیچے آ جاؤں؟۔۔ ماں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے خط کو ایک سائیڈ پر رکھا اور باہر نکل کر چھت کی طرف دیکھتے ہوئے چلائی۔۔ نیچے اتر آ، اللہ کرے تو ساری عمر اور کبھی بھی کسی امتحان میں پاس نہ ہو۔
ایک عورت ہتھوڑا لے کر اپنے بیٹے کے سکول میں پہنچی اور چپراسی سے پوچھنے لگی۔۔ نقیب سر کی کلاس کونسی ہے؟؟۔۔ ہتھوڑے کو دیکھ کر چپراسی نے ڈرتے ہوئے پوچھا، لیکن آپ کو ان سے کیا کام ہے؟ وہ عورت ہتھوڑے کو ہوا میں لہراتے ہوئے بولی۔۔ ارے وہ میرے بیٹے کے کلاس ٹیچر ہیں، مجھے ان کی کلاس دکھاؤ!۔۔ چپراسی دوڑ کر نقیب سر کے پاس گیا اور اطلاع دی کہ ایک عورت ہاتھ میں ہتھوڑا لیے آپ کو تلاش کر رہی ہے! نقیب سر کے چھکیّ چھوٹ گئے! وہ دوڑ کر پرنسپل کے پاس گئے! پرنسپل فوراً اس عورت کے پاس آ کر نہایت عاجزانہ انداز میں بولے۔۔ آپ جلد بازی سے کام نہ لیں، اطمینان رکھیں آپ کی شکایت فوری طور پر دور کر دی جائے گی۔۔۔ اس عورت نے کہا۔۔ مجھے کوئی شکایت نہیں، بس آپ نقیب سر کی کلاس بتائیں، میں ان کی کلاس میں جانا چاہتی ہوں۔ پرنسپل نے کہا، لیکن! آپ ان کی کلاس میں کیوں جانا چاہتی ہیں۔ وہ عورت دانت پیستے ہوئے بولی۔۔ کیوں کہ مجھے وہاں اس بینچ کی کیل ٹھوکنی ہے جس پر میرا بیٹا بیٹھتا ہے، کل وہ تیسری بار پینٹ پھاڑ کر آیا
ہے۔۔ بن بلائے مہمانوں کی آمد کا سُن کر لمحہ بھر کے لیے چودھری صاحب حُقے کا کش لگانا بھول گئے! بیچارے نام کے ہی چودھری تھے، آمدنی محدود تھی، اور اِخراجات زیادہ، سفید پوشی کا بھرم رکھنا دشوار ہو گیا تھا، مہمان کمرے میں آ بیٹھے، تو کچھ دیر بعد وہ باہر نکلے اور نوکر کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔۔ نوکرنے دبے دبے سے لہجے میں کہا۔۔ گھر میں تو سبزی ہے یا دالیں۔۔ چودھری صاحب نے صحن کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔ وہ مرغی کس کی پھر رہی ہے؟؟ نوکر نے کہا۔۔ ہمسائے کی ہے، دانہ دنکا چگنے آ جاتی ہے۔۔ چودھری غصے سے بولا۔۔ دانہ چگنے یا بیٹ کرنے، پکڑ اور ذِبح کر اِسے۔۔ یہ کہہ کر چودھری صاحب کمرے میں چلے گئے اور مہمانوں سے خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے، کچھ دیر بعد نوکر نے دروازہ بجا کر انہیں باہر بلایا اور ڈرتے ڈرتے کہا۔۔ چودھری صاحب، ذبح کرتے ہوئے مرغی کی گردن الگ ہو گئی، مرغی تو حرام ہو گئی۔۔ یہ سن کر چودھری کا پارہ چڑھ گیا، کہنے لگے۔۔ الو کے پٹھے، پہلے حلال تھی کیا؟؟ پکا سالن۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ مشاہدے میں آیا ہے، رشتہ قبول ہو تو فوری ہاں ہو جاتی ہے، ورنہ استخارے یا مشورے کا وقت مانگا جاتا ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔