sahafi apna ghar or waqar khud kun nai bachate

بے بس کہاں جائیں ۔۔؟؟

تحریر: محمد نواز طاہر۔۔

اخباری صنعت میں نوے کی دہائی تک رپورٹر، فوٹو گرافر ، سب ایڈیٹر، اور باقاعدگی سے کالم لکھنے والے( دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے لکھاری شامل نہیں تھے) عامل صحافی تسلیم کیے جاتے تھے ، اشتہارات ، سرکولیشن ، کتابت ، آرٹ ، پریس اور انتظامی امور میں فرائض انجام دینے والے معاون سے سربراہ تک اخباری کارکن تسلیم کیے جاتے تھے ، کارکن کی ضمن( تعریف) معاون سے ایڈیٹر تک سبھی شامل تھے، اس کی عدالتی نظیر پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر واجد شمس الحسن کا مقدمہ ہے جنہیں ادارےکے اعلیٰ ترین منصب پر فرائض انجام دینے کے باوجود بحیثیت کارکن(ورکر، ملازم ) عدالت نے تمام واجبات کا قانونی حقدار قراردیا ۔تب تک الیکٹرانک میڈیا صرف ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن تھے اور ان کا سٹاف سرکاری ملازم تصور کیے جانے پر اخباری صنعت کا حصہ نہیں تھا ۔قومی خبررساں ادارہ ایسو سی ایٹڈ پریس (اے پی پی ) سرکاری نیوز ایجنسی ہونے کے باوجود اخباری صنعت کا حصہ تھی جہاں ویج ایوارڈ کا اطلاق ہوتا تھا ۔

 اخباری صنعت میں صحافیوں سے زیادہ غیر صحافی کارکنان تھے ، صحافیوں بشمول غیر صحافی کارکنان کی تحریک میں غیر صحافی کارکنان کا جوش و جذبہ اور آواز زیادہ بلند سنائی دیتی تھی ، سنہ انیس پچاس میں پاکستان کی صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرلیونین آف جرنلسٹس( پی ایف یو جے) باقاعدہ فعال ہوچکی تھی اور اس کے دو دہائی کے بعد صحافی و غیر صحافی تمام اخباری کارکنان کی نمائندہ تنظیم آل پاکستان نیوزپیپرز ایمپلائیز کنفیڈریشن ( ایپنک) بھی وجود میں آگئی۔

 پاکستان میں غیر سرکاری الیکٹرانک میڈیا کی نشریات شروع ہوئیں تو پی ایف یو جے کے آئین میں ترمیم کرکے الیکٹرانک میڈیا کو رکنیت کا اہل قراردیا گیا اور اس میں پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان میں بحیثیت صحافی کام کرنے والوں کو بھی رکنیت دی گئی ، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آئین میں درج شرائط کے برعکس ایسے کئی لوگوں کو بھی رکنیت دی گئی جن کے نام اخبارات میں میں شائع ہورہے تھے ، یہ نام ابھی تک شامل ہیں اور مراعات یافتہ بھی ہیں الیکٹرانک میڈیا میں بھی ایسے لوگوں کو رکنیت دی گئی جو آئین کے تحت ماضی میں ممکن ک نہیں تھی ۔ایپنک میں لیکٹرانک میڈیا کی براہِ راست نمائندگی نہیں تھی نہ ہی الیکٹرانک میڈیا کے کارکنوں کے تحفظِ حقوق ملازمت کا قانون بنایا، ان کارکنوں کے حقوق کی آواز ایپنک اور پی ایف یو جے بلند کرتی رہیں۔

 پہلے تنظیمیں تقسیم ہوئیں پھر کارکنوں میں مالی اور سماجی اعتبار درجہ بندی ہوگئی اور ایک نئی اشرافیہ سامنے آئی ۔یہ اشرافیہ معمولاتِ زندگی میں کارکنوں کے مسائل سے لاتعلق رہتی ہے لیکن جیسے ہی ا س کے اپنے مفادات پر ذف پڑتی ہے یا کوئی مشکل وقت آتا ہے تو پھر یہ اشرافیہ سے عام کارکن بن جاتے ہیں ۔ میڈیا انڈسٹری میںعام کارکن کے معاشی مسائل میں اضافے کا ایک سبب یہ اشرافیہ بھی ہے ۔ اس اشرافیہ کا کارکنوں اور ان کی تنظیموں پر بلا مبالغہ گہرا اثرو رسوخ ہے جس کی وجہ سے کارکنان کے مسائل حل ہونے کے بجائے الجھ جاتے ہیں اور اب کارکنان کے قانونی و معاشی مسائل پر اشرافیہ کے مسائل کو ترجیح حاصل ہے ۔ ایک واضع فرق یہ ہے کہ کارکنان اپنے معاشی حقوق کے ساتھ صحافت کی آزادی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں لیکن اشرافیہ صرف اظہارِ رائے کی آزادی کا نعرہ لگاتی ہے ۔ اس تقسیم کا نقصان صرف کارکنان کو ہورہا ہے ۔

 ان دنوں بھی جبکہ حکومت اخباری کارکنان کے شرائطِ ملازمت اور اجرت سمیت دیگر استحقاقات کے سنہ انیس سو تہتر کے قانون نیوزپیپرز ایمپلائیز ( کنڈیشنز آف سروس )ایکٹ ( نکوساNECOSA) کو ایک آرڈیننس کے تحت ختم کرچکی ہے تو کارکنان اور اشرافیہ میں واضع تقسیم ہے ، کارکنان’ نکوسا ‘کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ اشرافیہ کا یہ مسئلہ ہی نہیں ، اشرافیہ صرف اظہارِ رائے کی آزادی کا مطالبہ کررہی ہے،عام کارکن بشمول ہیلپر ، ڈرائیور ’نکوسا‘ کو نظر انداز کرکے صرف اظہارِ رائے کی آزادی ہی کے نعرے کو اپنے مفاد کے منافی سمجھتا ہے۔ کارکنوں کی تنظیموں کے انتخابی عمل میں بلدیاتی الیکن کی طرح پیسے کا عمل دخل سرایت کرچکا ہے جس کی وجہ سے میڈیا انڈسٹری میں عام کارکن بشمول ڈرائیور اپنے مفاد ات کے تحفظ کے لئے الیکشن لڑنے کی پوزیشن میں ہی نہیں رہا ، یہی حالت اشرافیہ سے باہر عام عامل صحافی کی ہے، اس طرح میڈیا انڈسٹری کا عام کارکن میڈیا مالکان ، حکومت اور خود اپنے بھائیوں(الفاظ کی حد تک) کے استحصال کا شکار ہوچکا ہے اور اسے کوئی حقیقی نمائندہ کہیں دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی اس کا کوئی پُرسانِ حال ہے ، اسے ریاست ماں کے جیسی دکھائی نہیں دیتی بلکہ ماں کی سوتن یا ڈائن جیسی دکھائی دیتی ہے اور اسے اپنے ارد گرد کئی کردار اس کا پیٹ نوچتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ بے بس ہے، وہ بڑے گھر میںنہ چاہنے کے باوجود بسی ہوئی غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی محکوم بہو ہے جس پر سب کا ہر طرح کا پورا ’بس‘ چلتا ہے ۔(محمد نوازطاہر)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں