بلاگ: باباکوڈا
ڈان گروپ آف پبلیکیشن کے سی ای او حمید ہارون کا بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں انٹرویو نشر ہوا،جو ایک خاص مقصد کے لیے دیا گیا تھا تا کہ بین الاقوامی سطح پر اپنی افواج اور خفیہ اداروں کو نہ صرف ذلیل کیا جائے بلکہ نوازشریف کا کیس مضبوط کیا جائے۔ لیکن اللہ بھلا کرے بی بی سی جیسے بڑے براڈ کاسٹ ادارے کا جہاں پر شاید ابھی تک لفافے کی لت نہیں پہنچی، جس کی وجہ سے ہارڈ ٹاک کے میزبان اسٹیفن نے زبردست ہوم ورک کے بعد حمید ہارون کو ناک آؤٹ کر دیا ۔۔ اس انٹرویو میں حمید ہارون کسی بھی سوال کا منطقی جواب دینے میں بری طرح ناکام رہے۔ میزبان نے تین ایسے ایشوز پر حمید ہارون کو ناک آؤٹ کیا جن تین ایشوز نے ایک طویل عرصے سے پاکستانی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
اول – فوج اور اسٹیبلشمنٹ پاکستانی سیاست میں دخل اندازی کر رہی ہیں، دوم – جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہیں، اور سوم – صحافت پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔۔ ان تینوں سازشی تھیوریوں پر پروگرام کے میزبان نے بار بار کہا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں ان باتوں کو ثابت کرنے میں لیکن حمید ہارون کے جوابات ایسے مضحکہ خیز تھے کہ کئی مقامات پر میزبان بھی اپنی ہنسی نہ روک پایا اور استہزایہ انداز میں مسکرا دیا۔ ایک موقع پر میزبان نے سوال کیا کہ ۔۔”آپ کا ڈان گروپ مجرم نوازشریف اور مجرمہ مریم کےساتھ بہت ہمدردی رکھتا ہے۔۔جس پر حمید ہاروں نے جواب دیا کہ ، ان کےخلاف کرپشن چارجز رچائے گئے ہیں ؟۔۔میزبان نے پھر پوچھا، اس کا کیا ثبوت ہے اور کس نے رچائےہیں ؟۔۔حمیدہارون نے جواب دیا۔۔ آپ سوشل میڈیا پر دیکھیں وہاں پر ان کے بہت سارے ٹرول اکاؤنٹس ہیں جس کے پیچھے آئی ایس پی آر ہے، یہ ثبوت ہے کہ سازش ہو رہی ہے اور یہ سازش رچائی گئی ہے۔۔
اسی طرح جب صحافت پر پباندی کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ “کیا آپ کے اپنے صحافیوں پر پابندیاں ہیں ؟ کیا آپ نے خود یہ تجربہ کیا ہے؟”، جس پر حمید ہارون نے جواب دیا کہ “یہ سیلف سینسرشپ ہے”۔ یہ سن کر میزبان بڑبڑاتا رہ گیا کہ ۔ یہ “سیلف سینسر شپ” کیا بلا ہے ؟۔۔۔ جمہوریت کے خلاف سازش اور سیاست میں دخل انداری کرنے پر جب میزبان نے سوال کیا کہ جمہوریت کے خلاف کون سازشیں اور دخل اندازی کر رہا ہے تو حمید ہارون بار بار ایجنسیوں اور فوج کا نام لیتے رہے جس پر میزبان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ “آپ کہ رہے ہیں کہ نوازشریف کے خلاف دوسری جماعتوں کو آگے لایا جا رہا ہے لیکن کون لا رہا ہے، آپ نام نہیں لے رہے۔ اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج عمران خان کو سپورٹ کر رہی ہے تو پھر آپ کے پاس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت کہاں ہیں ؟ آپ صحافی ہیں اور صحافی بغیر کسی ثبوت کے بات نہیں کرتا۔ معافی چاہتا ہوں آپ بہت دور ہیں یہ باتیں ثابت کرنے سے”۔۔ مجھے بتائیں ان جملوں کے بعد لبرل میڈیا کے پاس کچھ کہنے کو کیا رہ جاتا ہے ؟
ایک موقع پر ہارڈ ٹاک کے میزبان نے پاکستانی فوج کی حمایت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ۔۔ “آپ کے مطابق پاکستانی سیاست میں دخل اندازی ہو رہی ہے اور جمہوریت کے خلاف سازش کی جا رہی ہے لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ خود ہی جمہوریت کے خلاف سازش کر رہے ہیں کیونکہ اس بات کے کہیں کوئی شواہد نہیں ملتے کہ پاکستانی ملٹری سیاست میں دخل اندازی کر رہی ہو یا جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہو۔ آپ کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اگر آپ لوگوں نے حمید ہارون کا ہارڈ ٹاک نہیں دیکھا تو ضرور دیکھیں۔ یہ پاکستان کے لبرل میڈیا کا اصلی موقف آپ کو سمجھنے میں مدد دے گا کہ کیسے یہ جمہوریت کے خلاف سازش کے نام پر کرپشن اور بھارت نواز حکومت کو بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور کیسے انہوں نے مسلسل اپنی ہی افواج اور خفیہ اداروں کے خلاف ایک بیانیہ ترتیب دیا۔ اس انٹرویو کے بعد لبرل میڈیا کا سارا بیانیہ دھڑام سے گر چکا ہے۔ ڈان لیکس سے لے کر نوازشریف کی کرپشن تک اور عمران خان کو آگے لانے سے لے کر صحافت پر پابندیوں تک تمام جھوٹ بولے گئے، جن کی کوئی صداقت نہیں ہے۔ یہ خود میں جمہوریت کے خلاف ایک گہری سازش رچائی گئی تھی جس کے پیچھے ڈان گروپ، جیو/ جنگ گروپ اور نوائے وقت گروپ موجود ہیں۔ اس انٹرویو کے بعد ہمارے متعلقہ اداروں کو اس پر فوری ایکشن لینا چاہیے ۔۔سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اس پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جائے جو حقائق کو منظرِ عام پر لائے۔۔(باباکوڈا)۔۔
(بلاگر کی تحریر سے ہماری ویب سائیٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں، اگر آپ اس تحریر سے کوئی اختلاف رکھتے ہیں یا اپنا کوئی موقف دینا چاہتے ہیں توہمیں لکھ بھیجیں ، ہم آپ کا موقف بھی ضرور شائع کریں گے۔۔علی عمران جونیئر)