خصوصی رپورٹ۔۔
نو مئی کے واقعات کے بعد پہلے گرفتار اور پھر حکام کے مطابق جیل کے باہر سے لاپتہ ہونے والے ٹی وی میزبان اور یوٹیوبر عمران ریاض خان نے بازیابی کے بعد دیے گئے پہلے تفصیلی انٹرویو میں کہا ہے کہ انھیں اپنی اس سوچ پر افسوس ہے کہ ملک کے مفاد میں کسی فرد کو لاپتہ کیا جانا درست ہو سکتا ہے۔عمران ریاض خان کئی ماہ تک غائب رہنے کے بعد ستمبر 2023 میں واپس آئے تھے۔ اپنے وکیل میاں علی اشفاق کے ساتھ ’کراس اگزیمینیشن‘ نامی پوڈ کاسٹ میں بات چیت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’افسوس اگر میں نے کبھی سوچا کسی کا غائب ہونا ریاست کے مفاد میں ہوسکتا ہے۔اس پوڈکاسٹ میں انھوں نے واضح طور پر تو یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے اتنا عرصہ کہاں، کن حالات میں اور کس کی تحویل میں گزارا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’تکلیف زیادہ تب ہوتی ہے، جب کوئی اپنا مارتا ہے۔نو مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ملک کے مختلف شہروں میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور فوجی تنصیبات و عمارتوں پر حملے کیے گئے تھے۔پولیس نے نقص امن کے خدشے کے تحت پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ عمران ریاض کو بھی گرفتار کیا تھا جو حکام کے مطابق سیالکوٹ ایئرپورٹ سے مبینہ طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ گیارہ مئی کو رہائی ملنے کے بعد پولیس مطابق وہ جیل سے باہر لاپتہ ہوگئے تھے اور چار ماہ بعد ستمبر میں واپس گھر پہنچے۔۔ پوڈ کاسٹ میں عمران ریاض خان کا کہنا تھا کہ ۔۔ میں کوئی غدار تو نہیں، میں نے ملک کے راز تو نہیں چُرائے ہوئے۔ میں دشمن ملک کے ساتھ تو نہیں ملا ہوا۔میں جو بات کر رہا تھا جو اختلاف رائے میں آسکتی ہے، وہ کوئی بھی کسی سے کر سکتا ہے۔ کسی سے ایسا برتاؤ نہیں ہونا چاہیے جیسے وہ ملک کا دشمن ہو۔وہ کہتے ہیں کہ گمشدگی کے دنوں میں انھیں سب سے زیادہ یاد اللہ کی آئی۔عمران ریاض کی عدم موجودگی میں ایسی افواہیں بھی اُڑنے لگی تھیں کہ شاید وہ اب زندہ نہیں۔وہ یاد کرتے ہیں کہ بازیابی کے بعد ’کوئی مجھے گلے لگانے آیا تو کوئی میرا تماشا دیکھنے آیا۔ کوئی مجھے حوصلہ دینے آیا، کوئی دعا دینے اور کوئی مخبری کرنے۔
عمران ریاض خان نے بتایا کہ وہ پچھلے چند دن سے بولنے میں بہتری محسوس کر رہے ہیں اور اسی لیے وہ پوڈکاسٹ میں شریک ہوئے۔ ’میں بول رہا ہوں اور بہتر بولوں گا۔ماضی میں عمران ریاض خان ملک میں ریاستی اداروں پر تنقید کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔بازیابی کے بعد پہلی بار ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مجھے آج افسوس ہے کہ میں نے کبھی زندگی میں یہ سوچا بھی کہ اگر کوئی غائب ہوا تو وہ کبھی ریاست کے مفاد میں بھی ہو سکتا ہے۔ نہیں، میں ان سارے لوگوں سے معافی مانگتا ہوں، جن کا دل دُکھا۔انھوں نے واضح کیا کہ کسی کو غائب کرنے کا کبھی کوئی جواز نہیں ہوتا۔ اگر کوئی آدمی کتنا بھی بڑا مجرم ہے، آپ اسے قانون کے سامنے لے کر آئیں۔ میں اس کی تکلیف سمجھتا ہوں۔انھوں نے مزید کہا کہ ’قانون بننا چاہیے اور یہ لوگ گھروں کو آنے چاہییں لیکن میں نے کبھی اس معاملے کو اس شدت سے محسوس نہیں کیا جو اب کرتا ہوں۔ مجھے اس کا افسوس ہے، میری زندگی رہی اور میں بولتا رہا تو کوشش کروں گا یہ قرضہ اتارنے کی۔
اس سب کے باوجود عمران ریاض آج بھی پیکا قانون کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت آن لائن مواد میں ریاستی اداروں پر تنقید کرنے پر صحافیوں کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پیکا کا قانون صحافیوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ ’جو لوگ کیچڑ اچھالتے ہیں، کیا یہ صحافت ہے؟ کیوں نہ ہوں سخت قوانین؟ ۔۔۔ میں قانون کے سخت ہونے کا حامی ہوں مگر اس کے غلط استعمال کے خلاف ہوں۔‘