تحریر: ڈاکٹر فاروق عادل۔۔
جائے استاد خالی است’۔ ذکر اس سیاست کا تھا جسے بلاول بھٹو زرداری نے ازکار رفتہ قرار دیا، سوال برادرم سلیم صافی کا تھا اور جواب قبلہ گاہی سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کا۔ اس جواب میں کچھ ایسی بات تھی جس نے یہ بھولا بسرا محاورہ یاد دلا دیا۔عرفان صدیقی صاحب سیاست میں ضرور ہیں لیکن انھیں بہ طور صحافی اپنی شناخت زیادہ عزیز ہے حالاں کہ وہ لفظ و خیال کے جادو گر یعنی ادیب ہیں، نسبتاً تازہ اطلاع کے مطابق شاعر ہیں اور شاعر بھی ایسے جس کی رومانیت میں بھی مزاحمت کی لپک لو دیتی ہے۔یہ سب خوبیاں اپنی جگہ لیکن سلیم صافی کے ساتھ ان کی گفتگو سننے کے بعد میں بھی جناب سہیل وڑائچ کا ہم خیال ہو گیا ہوں لیکن ذرا سے فرق کے ساتھ۔ سہیل وڑائچ جب انھیں استاذ الاساتذہ کہتے ہیں تو اس میں تھوڑی سی شوخی کسی قدر طنز اور بہت سی تنقید ہوتی ہے۔
ہماری سیاست آج جس تنگ گلی میں آ پھنسی ہے، اس میں اختلاف اور تنقید کی گنجائش تھوڑی نہیں بہت سی ہے جس کے مظاہر ان دنوں دیکھنے کو ملے بھی ہیں لیکن سلیم صافی کے سوال کے بعد عرفان صدیقی نے صورت حال کی جو تصویر پیش کی ہے، اس کے بعد انھیں اگر استاد تسلیم نہ کیا جائے تو یہ حق تلفی بھی ہوگی اور خود اپنے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔ ایسے معاشرے خوش قسمت ہوتے ہیں جن میں کسی معاملے یا تنازعے کو تیسری سمت سے دیکھنے والے صاحبان بصیرت پائے جائیں۔
آمدم بر سر مطلب۔ ہمارے یہاں سیاست میں بہت سے تصورات نئے پرانے ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک تصور ہمیشہ جوان رہا ہے یعنی نوجوان سیاست یا سیاست میں نوجوانوں کی کار فرمائی۔ ایسا تو بالکل نہیں ہے کہ قومی سیاست میں نوجوانوں کا حصہ کبھی نہیں رہا، ہمیشہ رہا ہے لیکن جب کبھی قومی سیاسی حیات کو زیر و زبر کرنے کا سودا کسی کے من میں سما جاتا ہے، یہ نعرہ کچھ زیادہ ہی زور کے ساتھ بلند کر دیا جاتا ہے جیسے پی ٹی آئی کے تجربے میں ہوا۔اس جماعت کو جب بانس پر چڑھایا گیا اور ہماری ہیت حاکمہ نے اپنے تمام تر جبروت کے ساتھ اس کی پشت پناہی کی تو ہمارا قومی منظر نامہ ہی بدل گیا پھر بدلے ہوئے ان مناظر نے اس قوم اور اس ملک کا جو حشر کیا، اس کا تصور ہی لرزا دینے والا ہے۔
اب ہمارے جوان رعنا یعنی بلاول بھٹو زرداری نے بابوں کو ازکار رفتہ قرار دے کر انھیں قبرستان کی راہ دکھانے کا نعرہ مستانہ بلند کیا تو سمجھ دار لوگوں کا ماتھا ٹھنکا اور بر بنائے حکمت انھوں نے خاموشی اختیار کی۔ اس تنازعے میں سب سے دانش مندانہ کردار اس نوجوان کے والد بزرگوار کا تھا جنھوں نے بڑی حکمت کے ساتھ اس اشکلے کو درست سمت عطا کر دی۔گزشتہ دنوں برادرم سلیم صافی نے استاد گرامی سے انٹرویو کیا تو انھوں نے اس قضیے کو زیادہ بہتر زاویے سے دیکھنے کی راہ سجھائی۔ سوال تھا کہ یہ جو بلاول صاحب بابوں کو تہہ تیغ کر کے نئی سیاست اور اس میدان میں نئے قرینے رائج کرنے کی بات کر رہے ہیں، وہ اسے کس انداز میں دیکھتے ہیں؟ اس باب میں عرفان صاحب کا تجزیہ توجہ طلب ہے بلکہ انھوں نے قومی منظر نامے کا وہ پہلو اجاگر کیا ہے جس کا تعلق حال اور مستقبل سے ہے۔
ہمارے بہت سے دانش ور اور اہل سیاست جب موجودہ احوال پر تنقید کرتے ہیں اور بانی پی ٹی آئی کے آج کے معاملات کا موازنہ نواز شریف کے ساتھ کرتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ دراصل وہ پاکستان میں شروع ہونے والے نئے دور اور اس کے تقاضوں کو ابھی تک سمجھ نہیں پائے۔ اگر سمجھ پاتے تو ان کی فکر اور تنقید کا زاویہ مختلف ہوتا۔عرفان صدیقی صاحب نے ہمیں یہی پہلو دکھانے کی کوشش کی ہے۔بلاول بھٹو زرداری صاحب کی طرف سے کہی گئی بات کو ہر کسی نے اپنے انداز میں لیا۔ بات کی گہرائی تک پہنچے بغیر کسی سیاسی فریق کی طرف سے اچھالی گئی کسی بات کو عین مین ان ہی الفاظ اور ان ہی اصطلاحوں میں آگے بڑھا دینے والے اہل صحافت اور بہت سے اینکروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صحافت کرنے کے بہ جائے پوسٹ آفس کا کردار کر رہے ہیں۔
اس عمل میں صحافت کا وہ کردار پیچھے رہ جاتا ہے جس کا تعلق خبر دینے اور خبر کی تہہ میں چھپے ہوئے حقائق کو آشکار کرنے سے ہے۔ اس طرح سیاسی سماج میں شور و غوغا تو بہت ہو جاتا ہے لیکن افراد معاشرہ سیاسی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں لہٰذا درست فیصلہ کرنے میں چوک کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے بابوں کی سیاست کے خاتمے کی بات بہ ظاہر خوش نما تو بہت ہے لیکن فی الحقیقت یہ ہے کیا، عرفان صاحب نے ہماری راہ نمائی اسی جانب کی ہے۔انھوں نے بتایا ہے کہ نئی سیاست کے پرچارک یعنی بلاول نئی سیاست نہیں کر رہے بلکہ80 برس پرانی سیاست کر رہے ہیں۔ فطری طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نئی سیاست کون کر رہا ہے؟ عرفان صاحب نے بتا دیا ہے کہ نئی سیاست میاں نواز شریف کر رہے ہیں اور بلاول کے والد گرامی آصف علی زرداری کر رہے ہیں۔
اب یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ نئی سیاست کیا ہے؟ نئی سیاست کو سمجھنے کے لیے پرانی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے۔پرانی سیاست دشمنی کی حد تک اختلاف، نفرت اور انتشار کی سیاست تھی۔ اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ اس سیاست کا حصہ رہی ہیں لیکن یہی دو جماعتیں ہیں جنھیں سب سے پہلے یہ احساس ہوا کہ یہ طرز عمل ہلاکت خیز ہے جس سے نجات ضروری ہے۔یہی احساس تھا جس کے بطن سے میثاق جمہوریت پیدا ہوا اور بقائے باہم کے جذبے کے ساتھ اختلاف کا اسلوب اختیار کیا گیا۔ جنرل مشرف کی سیاست کے خاتمے کے بعد اس نئی طرز سیاست نے ملک میں استحکام پیدا کیا۔ یہی استحکام تھا جو 2014 وغیرہ میں نا مطلوب ہوا اور اس کے خاتمے کے لیے پی ٹی آئی کی سرپرستی کی گئی لیکن اب یہ دور گزر چکا۔ اب صرف میثاق جمہوریت کے داعی ہی اس نئی طرز سیاست کے قائل نہیں رہے بلکہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر اس پر آمادہ ہو چکے ہیں۔
ان سب کے پیش نظر اب صرف ایک ہی نصب العین ہے کہ ملک کو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دینی۔ یہی سبب تھا کہ بلاول کے لہجے میں تلخی آنے لگی اور یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اس کے نتیجے میں ماحول خراب ہو سکتا ہے تو وہ فوری طور پر بروئے کار آئے اور انھوں نے بلاول کے سامنے بند باندھ دیا۔ اب اگر جی چاہے تو اسے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا نیو سوشل کانٹریکٹ کہہ لیں یا میاں محمد نواز شریف کا ٹرتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن۔ یہی نیا دور ہے اور یہی نئی حقیقت ہے۔
ہماری سیاست کی یہ بہت بڑی اور تاریخی جست ہے جسے اٹھانے والے صرف اہل سیاست نہیں بلکہ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نئے دور کی اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ وہ ابھی تک انتشار اور نفرت کی راہ پرگامزن ہیں۔ اپنی اس نفرت کا شکار انھوں نے ہم عصر سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی بنا لیا ہے۔یہ ایک عالم گیر سچائی ہے کہ سیاست میں اختلاف برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا طرز عمل ناقابل قبول ہے جس سے ریاست کو زک پہنچے۔ اب بانی پی ٹی آئی اگر اپنی سیاست کو بچانا چاہتے ہیں تو انھیں سیاسی طور طریقے اختیار کرنے پڑیں گے۔ ریاست دشمنی نہیں چلے گی۔ ملک کو مستحکم بنانے کے میثاق میں شریک ہونا پڑے گا اور انتشار کی حکمت عملی کو بہت گہرا دفن کرنا پڑے گا۔ یہی نئی سیاست ہے اور یہی فرمان امروز ہے۔ اس حقیقت کو جتنا جلد سمجھ لیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔