تحریر: نادرشاہ عادل۔۔
80 ء کا عشرہ تھا، جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی تھی ۔ بڑی اسکرین پر قتل وغارت، تشدد ، جنس اور فراری ادب وفکشن کی نئی لہر اسکرین پلے کی رگوں میں داخل کی گئی ۔ڈرامہ از سر نو لکھا جانے لگا، لیکن آمریت کے بطن سے ایسی مزاحمتی اور دلچسپ کہانیاں بھی ٹی وی کی زینت بنیں جن میں رائٹرز نے کمال مہارت سے سنسر اور آزادی اظہارکی راہوں میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے بیچ ڈرامہ سیریلز کے نئے تجربات کیے اور اس میں اردو ، سندھی ، بلوچی ، برا ہوئی، پنجابی، پشتواور دیگر مقامی زبانوںمیں بھی فلموں، ویڈیوز، ٹی وی ڈراموں اور متوازی فلموں کے نئے آئیڈیازکو استعمال کیا۔
اس حوالہ سے سندھی ڈرامہ نے جو ہلچل مچائی وہ مثالی تھی۔ دیواریں، جنگل، آسمان تک دیوار، چھوٹی سی دنیا سمیت بیشمار سندھی ڈراموں نے فنکاروں کی نئی کھیپ مہیا کی، پی ٹی وی نے ڈرامے کی صنف کے لیے بڑا کام کیا، اسی طرح سندھی ٹیلنٹ کی کراچی کی فلمی صنعت میں بھی قدر افزائی ہوئی، فلم انڈسٹری میں تخلیق ، ارتقا اور سماجی حقیقت پسندی کی ضرورت پر مباحث شروع ہوئے، فن اداکاری کے سائنسی اور فنکارانہ تکنیک کے تجربوں سے پی ٹی وی پروڈیوسروں نے فلمی صنعت کے سٹیریوٹائپ کے مقابل زندگی کا ڈرامہ ’’ایز اٹ از‘‘ پیش کرنے کا دبستان قائم کیا۔آج اسی حوالہ سے سندھی ڈرامہ سیریلزکی مقبولیت کے تناظر میں کچھ یادیں تازہ کی جا رہی ہیں جو معروف پروڈیوسرہارون رند اور جنرل مینیجر پروگرام پی ٹی وی عبدالکریم بلوچ کی زبانی ہم نے سنیں اور ایک ایسی ٹی وی ڈرامہ کی ڈسکسشن شروع ہوئی جس کا دی اینڈ ٹریجک تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن روزنامہ ’’حریت‘‘ میں ہارون رند کا فون آیا، ان کی خواہش تھی کہ اگر موقع ملے تو ان سے کراچی ٹی وی سٹیشن پر ملاقات کے لیے آجائیں ۔ ان کا اشتیاق دیدنی تھا، باکمال پروڈیوسر تھے، میں دوسرے یا تیسرے دن ان سے ملاقات کے لیے ٹی وی سٹیشن پہنچا ۔
یہ وقت ہارون رندکی شہرت کے نصف النہارکا تھا ، ان کی سیریل ’’جنگل‘‘ اور ’’دیواریں‘‘ کی دھوم مچ گئی تھی، اردو کے مین اسٹریم ڈرامہ تک ان کی گونج سنائی دیتی تھی۔ عبدالقادر جونیجو توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے ،کاسٹیوم ڈرامہ کی بہار آئی ہوئی تھی، سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں سندھی بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی طرف سے روایتی کلچر ڈے منانے کا اتنا بڑا عوامی رواج نہ تھا مگر یوں کہیے کہ وہ دن حقیقت میں ’’سندھ جئے، سندھ وارا جئین، سندھی اجرک ٹوپی وارا جئین‘‘ کی دھن پر رقصاں تھا، نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کی ہر قومیت ، ہر اکائی، سیاسی جماعت عوامی یکجہتی کی تصویر بنی ہوئی تھی، ایسی ملی ہم آہنگی تھی کہ سندھی مہاجر ، بلوچ ، پنجابی ، پختون سیاست ایک پیچ پر دکھائی دیتی تھی، یہ واقعی سندھی ڈرامہ کی نشاۃ ثانیہ کے بیش بہا دن تھے جو رفتہ رفتہ خاک بسر ہوئے اور جس ڈرامہ نے سندھ اورکراچی کی فکری تابندگی سے اردو صحافت ، ادب ، تہذیب و ثقافت کو ملکی وحدت کے ایک نئے سحر سے آشنا کیا وہ روایت ابلاغ کے چراغوں کے ہاتھوں بجھائی گئی۔
رفتہ رفتہ کراچی کی فلم انڈسٹری برباد ہوئی، فنکار بچھڑتے گئے، لاہور کے فلمی اسٹوڈیوز کی طرف ہجرت ہوئی، پشتو اور سندھی فلموں پر زوال آیا، انور اقبال کی پہلی بلوچی فلم ’’حمل وماہ گنج‘‘ کی ریلیز ممکن نہ ہوسکی، کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیوز، ماڈرنزاسٹوڈیوز ویران ہوگئے۔ جس پاکستانی فلم کلچرکی پیدائش اور افزائش کی تمنا میںہمارے فلمسازوں، ہدایتکاروں اور فنکاروں ہنرمندوں اور شاعروں نے اپنا خون جگر صرف کیا انھیں آج جس طرزکی فلمیں، ریڈی میڈ ڈرامے اور ثقافتی شوز ملتے ہیں ان کے ویلیو سسٹم پر بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری، والا معاملہ ہے۔
وجہ یہ ہے کہ کلچر، فلم، ڈرامہ ، میوزک، کنسرٹ، ماڈلنگ اور ایکٹنگ پر رائے دینے کا حق اور اوپن ڈائیلاگ کا فورم آپ کا میرا ڈومین نہیں، اس پر ایک کل آرٹسٹک کانفرنس کی ضرورت ہے جو نئی نسل کو سامنے بٹھا کر ان سے سوال کرے کہ قوم کو ایک مریضانہ فلم اور ڈرامہ کلچر سے کیسے نجات دلائی جائے، جو اسٹیج اور تھیٹر سنجیدگی سے محروم ہوا ،اسے اب پرائیویٹ ٹی وی ڈرامہ پروڈکشنز اور فلم کلچر کی ولگیریٹی اور لغویت سے کیسے بچایا جائے۔اس عظیم ہدایت کار اوٹو پرنگم کی تخلیقی معصومیت اور فنی حسن کوکیسے یقین دلایا جائے کہ ابھی فلم میڈیم کی سر بازار رسوائی کا طبل نہیں بجا، ابھی کچھ لوگ اس میڈیم کی بقا اور فن اداکاری کی آفاقیت کے لیے میدان میں موجود ہیں۔
بہرکیف سندھی کلچر، سماج، سیاست، قبائلی رسوم ورواج اور اداکاروں کا اژدھام کئی سندھی آرٹسٹوں کوگوشہ گمنامی سے شہرت کے بام عروج پر پہنچانے میں کامیاب ہوا۔ ناموں کی فہرست کافی طویل ہے اور رائٹرز بھی اپنے موضوعات کے حیات وکائنات کے تناظر میں وسیع المطالعہ اور قادرالکلام شعرا سمیت اسکرین پلے رائٹنگ میں اپنا کمال رکھتے تھے۔ اسی سیاق وسباق میں پروڈیوسر ہارون رند نے ایک گفتگوکے لیے بلایا، بات چیت خوشگوار تھی، پہلے ان کی خواہش یہ سامنے آئی کہ ایک ثقافتی پروگرام لکھیں جو لیاری کے عوام اور معاشرے کا عکاس ہو۔
اس ہم کلچرل ٹون کے ساتھ پیش کریں گے، پھر بات ایک ٹی وی ڈرامہ کی ہوئی، جب لیاری کے انسانی دلچسپی کے انوکھے اور متنوع موضوعات بکھرتے سمٹتے ایک پندرہ اقساط کی ڈرامہ سیریل تک پھیل گئے تو میری تجویز تھی کہ اگلی ملاقات میں ، میں ن م دانش کے ساتھ آؤں گا،اس پر تفصیلی بات پھرہوگی، دانش نے لیاری ڈرامہ سیریل کا اپنا تھیسس پیش کیا ، ظاہر ہے وہ غیر روایتی انداز فکرکے حامل مارکسسٹ دانشور تھے، لیاری سے ان کی سیاہ فام کی حیثیت میں دانشورانہ Identityبھی اس امرکا تقاضہ کرتی تھی کہ لیاری کا ڈرامہ عوامی امنگوں ، ثقافتی اور سیاسی و نسلی تاریخ کا پینوراما ہو۔ پھر علاقے کی سیاسی ڈائنماکس زیر بحث آئیں، ہارون رند کے ساتھ جناب عبدالکریم بلوچ بھی گفتگو میں دلچسپی لیتے رہے ، یوں یہ پروجیکٹ طے پایا کہ آپ اور دانش اسے co-authorship کے ساتھ لکھیں گے۔ قسطیں لکھی جانے لگیں،اس پر ڈیبیٹ بھی ہوتی رہی، ہم لوگ ہارون رند کی رہائش گاہ، ڈالمیا سیمنٹ کے مکینوں سے بھی ملتے رہے۔
ٹی وی سٹیشن پر معروف سندھی اور اردو اداکاروں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، پھر اچانک خبر لیک ہوئی کہ لیاری پر بیگانے لوگ کے نام سے ڈرامہ سیریل آئے گی، اس خبر پر ہارون رند نے خفگی کا اظہارکیا ، اداکار شفیع محمد ، نور محمد لاشاری، اختر بلوچ اور دیگر آرٹسٹوں نے لیاری سے اپنی سیاسی وجذباتی وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ جب قسطوں کی تعداد 20 سے زائد ہوئی تو ہارون رند نے اس کا جائزہ لیا، انھیں اسکرپٹ میں لیاری کی تلاش تھی ، اسکرپٹ پھیلا ہوا سمندر تھا، بحیرہ عرب کی طرح بحر بے کنار۔
رند صاحب نے اس میں نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ کی نسلی امتیازکی پالیسی اور دیگر سیاسی مضمرات اور حوالوں کا نوٹس لیا۔ مشورہ دیا کہ اسکرپٹ لیاری کے محنت کش عوام کی غربت، سیاسی کشمکش، تعلیم و معاشی جدوجہد اور زندگی کی مانگ اور تڑپ کی عکاسی کرے، پھر ٹی وی بیوروکریسی نے لیاری کے اداکاروں کی کاسٹنگ میں بلیک کردار ’’ رامین‘‘ کے اینٹی سٹبلشمنٹ کردار پر سوال اٹھا دیا ، ہارون رند کا کہنا تھا کہ ڈرامہ سیریل میں ایک کردار صحافی کا ہوگا جو آپ کریں گے اور دوسرا ن م دانش کا ہوگا جو علاقے کی معاشی حالت بدلنے میں عملی طور پر لیاری کے عوام کوگائیڈ کرے گا۔
لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اسکرپٹ کے پھیلاؤ نے پروجیکٹ کو یرغمال بنا لیا، ایک بار تو عبدالکریم بلوچ مجھے کسی پریس کانفرنس میں ملے تو ہسنتے ہوئے کہنے لگے ’’سید صاحب کیا ’ بن حر‘ کی کہانی لا رہے ہیں؟ ‘‘ بن حر اور چارلٹن ہیسٹن سے میری قلمی دوستی دس سالوں پر محیط تھی، ان کے ذاتی خطوط اور دستخط تصویریں میرے ریکارڈ میں تھیں، پھر وہ 1983ء میں ایک دستاویزی فلم کی تیاری کے سلسلہ میں پاکستان آئے تو سینئر صحافی محمد سرور نے مجھے نوائے وقت کی پی پی آئی اور اے پی پی کی کریڈز دیں کہ چارلٹن ہیسٹن کل کراچی کے یو ایس انفارمیشن سینٹر آئیں گے، وہاں ان سے ملاقات ہوئی ، ہیسٹن نے گفتگوکی،بہت خوش ہوئے،اپنی تصویریں،خطوط دیکھے، اس طرح یہ چیپٹرکلوز ہوا۔
لیاری کی کہانی کا دی اینڈ یوں ہوا کہ لیاری کی ڈرامہ سیریل کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا، ہارون رند عارضہ قلب کے باعث دنیا میں نہ رہے، قسطیں ادھر ادھر ہوگئیں، پی ٹی وی کی طرف سے بیگانے لوگ کا سناپسس سلیم کوثر صاحب نے اپنے خوبصورت قلم سے لکھا، یہ کتابچے کی صورت میں ہمیں ملا۔ بعد میں سناگیا کہ قسطیں شاید کوئی نجی پروڈیوسر اپنی ٹیلی فلم کے لیے کام میں لائیں گے، مگر ن م دانش نے شاید اس سے معذرت کی۔ باقی کہانی ، ان سے کوئی سنے تو مزہ ہی آجائے۔یہ دو ایسے المیے ہیں جن میں ایک اہم اسکرپٹ اور دوسری بلوچی فلم سینماؤں میں ریلیز نہ ہوسکی۔ ہاں البتہ وش چینل کے سربراہ احمد اقبال بلوچ اور اویس بلوچ نے انور اقبال کے اشتراک سے بلوچی فلم ’’حمل وماہ گنج‘‘ کو اپنے چینل پرکئی بار براڈکاسٹ کیا۔حمل وماہ گنج میں راقم نے ’’گوریچ ‘‘ کا رول کیا تھا۔۔(بشکریہ ایکسپریس)