تحریر: شکیل بازغ
اس نے ایم فِل اِن پولیٹیکل سائنس کر رکھا تھا، دکھنے میں خوش شکل، خوش گفتار تھی، بولی میں اینکرنگ میں دلچسپی رکھتی ہوں، آپ مجھے ٹریننگ دیں، میں چونکہ اینکرز رپورٹرز کی پروفیشنل ٹریننگ کا ادارہ چلا رہا ہوں (جسکا واحد مقصد ہی یہ ہے، کہ وہ لوگ جو میڈیا میں آنا چاہتے ہیں، وہ باقاعدہ تربیت لے کر آڈیشن دیں اور اپنی قسمت آزمائی کریں، اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ جو تربیت یافتہ نہیں ہوتے، انہیں ناپسندیدہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں جنسی ہراسگی سر فہرست ہے، تربیت یافتہ آغاز میں ایسی صورت حال سے کسی حد تک محفوظ رہتی ہیں۔
یوں کہہ دینا کہ ہر چینل میں یہی حال ہے، ایسا نہیں ہے،ہاں ایسا بھی نہیں کہ ہر چینل میں شرافت کے مجسمے ہی بیٹھے ہیں، میری ایک سٹوڈنٹ کہتی ہے، سر جنسی ہراسگی تو گھر سے قدم باہر رکھنے سے ہی شروع ہو جاتی ہے، ہمیں دیکھنا ہے، ہم نے کس طرف جانا ہے، خوبصورت بات،
بہرحال اس نے تین ماہ خوب محنت سے ٹریننگ لی، آڈیشن دیا، اور ایک ادارے میں نائٹ شفٹ میں بطور اینکر خبریں پڑھنا شروع ہوگئی، کچھ عرصے بعد اس نے مشورہ طلب کرنے کیلئے فون کیا اور بتایا کہ مجھے شفٹ انچارج کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے، میں نے کہا آپ انچارج کے انچارج کو صورت حال سے آگاہ کریں، اس نے ایسا ہی کیا، اسکے شفٹ انچارج کو سمجھا بجھا کر اسکی جان چھوڑ دینے پر آمادہ کر لیا گیا، نئی مشکل یہ آن کھڑی ہوئی، کہ اب انچارج کا انچارج صبح تین بجے تک اسے رضاکارانہ طور پر فون پر زندگی کے اتار چڑھاو پر بھاشن دینا شروع ہوگئے، میں نے کہا اب یا تو اس سے تعاون کرو، یا ادارہ چھوڑ دو، میں دیکھنا چاہتا تھا کہ میری دی گئی تربیت کا اس نے کیا اثر لیا، مجھے دو دن بعد اسکا فون آیا، سر میں نے ادارہ چھوڑ دیا، میں نے کہا اب؟ کہتی ہے، کہیں اور کوشش کریں میرے لئے، خیر میں نے ایک نہایت شریف النفس دوست کو فون کیا، اور اسے کہا، لڑکی ٹرینڈ ہے،6 ماہ ادارے میں کام کر چکی ہے،اسے آج ہی آڈیشن کیلئے بلائیں، دوست نے کہا آپ اسے لے کر شام میں آجائیں، چائے بھی اکھٹی پی لیں گے، میں اسے لے کر گیا، وہ اسے دیکھتا رہ گیا، میں گھبرا گیا، خیر سکرپٹ منگوایا اسے پڑھنے کو کہا۔ پاس ہوگئی۔ بناآڈیشن میرے احترام میں اس نے اسے فوری تیار ہوکرآنے والی ہیڈلائنز کرنے کا کہہ دیا، میں نے شکریہ ادا کیا، کہتے ہیں، جو دروازہ کھلا ہو اس میں محتاط انداز سے داخل ہونا چاہیئے، چونکہ ان صاحب سے پرانے اور اچھے مراسم تھے، اس لئے میں نے اپنے خدشات کو دفن کردیا، چند ماہ وہ سٹوڈنٹ دوست کے چینل میں کام کرتی رہی، لیکن کچھ عرصے بعد مجھے سٹوڈنٹ نے بتایا، کہ سر کی نظریں سر سے پاوں تک کا ایکسرے کرتی ہیں، لیکن ابھی تک زبان سے کچھ نہیں بولا، پھر یوں ہوا کہ اسے نظر انداز کرنا شروع کردیا گیا، یعنی شفٹ چینج، بلٹین نہ دینا، ہیڈلائنز تک محدود رکھنا اور یہاں تک کہ اس سے ہر بلٹین لے لیا گیا، اس نے روتے ہوئے بتایا، کہ دراصل مقصد ان سر کا بھی وہی ہے، جس سے میں نے پچھلا چینل چھوڑا، میں نے کہا جب تک زبان سے نہیں بولتا، خاموشی سے لگی رہو، ادارے کے قوانین کی پابندی کرو، اپنی جانب سے کوئی کمی نہ چھوڑو، اپنی عزت پر سمجھوتا نہ کرنا، خیر کچھ عرصے کے بعد اسے وہ چینل بھی چھوڑنا پڑا، میں نے ایک اور سینئر کے پاس بھیجا جو ہمیشہ شفقت سے پیش آئے، ان صاحب نے نہایت شفقت سے اسکا آڈیشن کرایا، اب وہ انکے چینل میں کام کر رہی ہے، لیکن انکی جانب سے بھی انہیں رات تین بجے میسجز آنا شروع ہو چکے ہیں، ایسی کئی ہراسگی کی آب پیتیاں آن ایئر دیگر اینکرز بھی سنا چکیں، لیکن انہیں فاصلہ رکھ کر اپنا رستہ بنانا آتا ہے۔
ایک خبر ہے تصدیق ہونا باقی ہے، پاکستان کے سب سے بڑے اینکرز کمیونٹی گروپ میں شیئر ہوئی، خبر میں ایک نجی ٹی وی چینل کے اعلٰی عہدیدار کو مبینہ طور پر ایک خاتون اینکر کیساتھ قابل اعتراض حالت میں ایک ہوٹل کے کمرے میں جا دھرا گیا، کارروائی پولیس نے کی جس پر ایس ایچ او کو موبائل فونز تحویل میں لینے کی وجہ سے ملزم صاحب نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، چینل کے تین رپورٹرز نے بیچ بچاو کرایا، لیکن موبائل فونز ابھی تک واپس نہ کئے۔
ایک دہائی پہلے کی بات ہے، ایک خاتون جو آجکل بڑی اینکر جانی جاتی ہیں، ایک چینل میں اعلٰی عہدیدار کیساتھ تین دن پی سی بھوربن میں گزارنے کے الزامات کا سامنا کر چکی ہیں، تب بھی جتنے منہ اتنی باتیں تھیں، عام تاثر یہی ہے کہ میڈیا میں ترقی ایسے نہیں ملتی، خصوصا خواتین جو آتے ہی چھا جاتی ہیں، ان پر اس قسم کے الزامات لگتے ہیں، میں بھی طویل عرصے سے میڈیا میں کام کر رہا ہوں، کہانیاں موجود بھی ہیں، چند ایک کیسز سامنے آتے بھی ہیں، لیکن یہ کہہ دینا، کہ تمام خاتون ورکرز کی ترقی کا یہی راز ہے، نہایت نا مناسب بات ہے، دن رات سر جھکائے محنت پر ہی تکیہ کرنے والی باہمت خواتین بھی میڈیا انڈسٹری میں کام کررہی ہیں، اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہاں انہیں بہت کچھ برداشت کرلے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ جنکے اعصاب مضبوط ہوں اور دماغ چلتا ہو وہ دھیرے دھیرے نیک نامی کیساتھ منزل پالیتی ہیں۔ اکا دکا مچھلی ہر تالاب کو گندا کر رہی ہے،ایسی چند لڑکیاں ہیں جو ایسے حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہیں، اور بڑی تعداد انکی بھی ہے، جو اطراف کی آوازوں کو خاطر میں نہیں لاتیں، فوکس کام پہ رکھتے ہوئے،عزت بچا کر راہ نکال لیتی ہیں، اور ایک دن اپنا نام اپنے کام کے دم پر بنا لیتی ہیں، جو نِری شریف ہیں، اور حالات کا دماغ سے مقابلہ نہیں کر سکتیں، گھر بیٹھ جاتی ہیں، میری مخاطب وہ گندی مچھلیاں ہیں، جو میڈیا میں عورت کے مستقبل کو تاریک کر رہی ہیں، انکی ادائیں، انکے انداز، انکی شہرت کی حرص اتنا اندھا کر دیتی ہے کہ وہ پہلی پیشکش پر ہی مٹھائی کی دکان پر ٹرے میں رکھی رس ملائی کی طرح چمکنے لگتی ہیں۔ جس سے یہ بھیڑیئے مزید دلیر ہوتے ہیں، انکی رالیں نہ پونچھوں بلکہ انکی زبانیں خشک ہوجائیں۔سانس سوکھی رہے۔ ورنہ ہوتا پھر یوں ہے، کہ آنکھوں میں اینکرنگ کے خواب سجائے آنے والی ہر لڑکی دیکھ کر انکی رال ٹپکتی ہے، ایسے میں دماغ کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے، مرد کو کتنے دور کتنے پاس رکھنا عورت کے بس میں ہے، مرد تو بے چین ہوا پھرتا ہے، یہ صرف میڈیا میں ہی نہیں، ہر شعبے میں یہی حالات ہیں، کوئی ایک شعبہ بتائیے جہاں عورت شکر بنی پھرتی ہو اور مرد کو میٹھے سے نفرت ہو؟ ہاں میں کئی ایسے اعلٰی عہدیداران کو بھی جانتا ہوں جن کا طویل کریئر ایسے خرافات سے بے داغ ہے، اور ایسے لوگ ہر چینل میں موجود ہیں۔
یہ خواتین ورکرز پر منحصر ہے مٹھاس معتدل رکھیں۔جو چند شکر خورے ہیں باز نہیں آئیں گے۔
ثبوتوں کیساتھ ایسی ایسی کہانیاں سینے میں دفن ہیں کہ لکھ دوں تو شام تک مار دیا جاوں۔ سوچ رہا ہوں اللہ پردے رکھنے والا ہے۔ وہی ہدایت دینے والا ہے۔ پہلے خود ولی اللہ بن جاوں پھر انگلی اٹھاوں۔۔۔(شکیل بازغ)۔۔
(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔