batein voice of america ki

باتیں وائس آف امریکا کی۔۔

تحریر: مبشر زیدی۔۔

ایک دن مجھے ای میل ملی کہ وائس آف امریکا کو آپ کی خدمات کی ضرورت نہیں رہی۔ آئندہ آپ وی او اے کے دفتر نہ آئیں۔ اس کی ای میل اور دوسری سروسز میں لاگ ان نہ کریں۔ پھر ایک دن مجھے دفتر طلب کیا گیا۔ مجھ سے میرا کارڈ چھین لیا گیا۔ ایک گارڈ مجھے میری میز تک لے گیا اور سامان اٹھاکر چلے جانے کو کہا۔ مجھے کسی نے الوداع نہیں کہا۔

اس سے پہلے میں نے وائس آف امریکا میں دو ڈھائی سال بہت جم کر کام کیا تھا۔ ایکسکلوسیو خبریں دیں۔ ریڈیو پر ٹاک شوز کی میزبانی کی۔ ویب سائٹ پر دو سلسلے ایسے شروع کیے کہ دوسرے میڈیا گروپس کو پیروی کرنا پڑی۔ ایک خبر وائس آف امریکا نے بہترین رپورٹس میں شامل کی۔ وی او اے کی ڈائریکٹر امینڈا بینیٹ رخصت ہونے لگیں تو اپنے دور کی بہترین رپورٹس میں میری دو رپورٹس کو شامل کیا۔ دو سال کی سالانہ پرفارمنس رپورٹ میں میرے کام کو بہترین قرار دیا گیا۔

ٹرمپ کے پہلے دور کے اختتام پر الیکشن سے پہلے ایک قضیہ کھڑا ہوا۔ ایک ناتجربہ کار لڑکی نے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی مہم سے متعلق ایک رپورٹ بنائی جو خبر کم اور پروپیگنڈا زیادہ تھا۔ اس پر ری پبلکنز نے شور مچایا۔ ٹرمپ کے مقرر کردہ ادارے کے سربراہ نے تحقیقات کا حکم دیا۔ اس خبر کے نشر کیے جانے میں اوپر سے نیچے تک سب لوگوں کے نام پوچھے گئے۔ اردو سروس کی ڈیجیٹل ڈیسک کی انچارج تابندہ نعیم تھیں۔ انھوں نے اس خبر کو اپروو کیا تھا۔ انھوں نے خود کو بچالیا اور میرا نام ڈال دیا، حالانکہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ چار افراد کو ملازمت سے نکالا گیا، جن میں میرا نام شامل تھا۔

میں نے تابندہ کو سو بار فون کیا۔ انھوں نے نہیں اٹھایا۔ کوکب فرشوری سروس چیف تھے۔ انھوں نے بھی فون نہیں اٹھایا۔ ایچ آر نے ای میلز کے جواب نہیں دیے۔ اس قدر مایوسی اور جھنجھلاہٹ ہوئی کہ بتا نہیں سکتا۔

پھر پتا چلا کہ تابندہ کو معطل کردیا گیا ہے۔ معلوم ہوگیا ہوگا کہ وہ ملوث تھیں۔ وہ مستقل ملازم تھیں اس لیے انھیں نہیں نکالا گیا۔ ہم غریب دہاڑی دار مزدور تھے۔ ہمیں کون پوچھتا۔

کوویڈ کا دور تھا۔ وبا اپنے عروج پر تھی۔ سب لوگ گھر سے کام کررہے تھے۔ لیکن مجھے گھر سے نکلنا پڑا۔ اوبر چلانا شروع کی۔ سواریوں میں کوویڈ کے مریض ہوسکتے تھے۔ ہوتے ہوں گے۔ میں ایکسپوز ہوسکتا تھا۔ لوگ مر رہے تھے۔ لیکن سفاک لوگوں کو کیا پرواہ ہوتی۔

چند ماہ بعد جو بائیڈن الیکشن جیت گئے۔ اب مجھے امید ہوئی کہ ہم لوگوں کو واپس رکھ لیا جائے گا۔ تابندہ فورا بحال ہوگئیں۔ ہمیں کسی نے نہ پوچھا۔ میں نے پورے سو سینیٹرز، کئی ارکان کانگریس، تمام وفاقی وزرا، صدر، نائب صدر، خاتون اول، چیف آف اسٹاف اور سپریم کورٹ کے ججوں کو خط لکھے اور کئی سو ڈالر خرچ کرکے کوئیر سروس سے بھیجے۔ کئی جواب آئے۔ خاص طور پر ہمارے رکن کانگریس کونولی اور سینیٹر ٹم کین نے دلچسپی لی۔ اپریل کے آخر میں وائس آف امریکا نے اطلاع دی کہ آپ کو پہلی تاریخ سے بحال کیا جارہا ہے۔

ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ سروس چیف آپ کی واپسی کے حق میں نہیں۔ میں نے سینیٹر کے آفس ای میل بھیج کر اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ دو ماہ بعد کنٹریکٹ کی تجدید ہونی ہے جو نہیں کی جائے گی۔ وہاں سے تسلی والی ای میل آئی۔

ان دو بلکہ ڈیڑھ ماہ میں تابندہ نے نہ فون کیا، نہ فون سننا گوارا کیا۔ میں ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگاسکتا تھا۔ سروس چیف نے گھٹیا حرکت یہ کی کہ چار گھنٹے منہ اندھیرے اور چار گھنٹے مغرب کے وقت بلیٹنز دیے۔ مزدور منع بھی نہیں کرسکتا تھا اور شکایت بھلا کس سے کی جاتی۔

وہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا۔ پندرہ جون کو ایچ آر نے مطلع کیا کہ آپ کا کنٹریکٹ دو ہفتے بعد ختم ہوجائے گا تو ری نیو نہیں کریں گے۔ مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ اس بار میں نے سینیٹر کو ای میل کرکے اطلاع تو دی لیکن کوئی مدد طلب نہیں کی۔

میں حوصلہ ہارنے والا بندہ نہیں۔ اس نوکری کے جانے کے بعد اتنے پیسوں کی ملازمت نہیں مل سکتی تھی اس لیے آٹھ گھنٹے کی معمولی ملازمت قبول کی۔ اس کے ساتھ اوبر چلائی۔ تین سال میں دو ماسٹرز بھی کیے۔ بیس سے زیادہ سرٹیفکیشنز کیں۔ ٹیچنگ کورس بھی مکمل کیا۔ سخت مڈلائف کرائسس سے گزرنے کے بعد نیا کرئیر شروع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

اس دوران بچے بڑے ہوگئے۔ دونوں روزگار سے لگ گئے۔ بیوی نے بھی جاب شروع کردی۔ ہم نے اپنا گھر خرید لیا۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ وائس آف امریکا کی ملازمت برقرار رہتی تو کولہو کے بیل کی طرح لگا رہتا۔ وہاں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو برسوں سے امریکا میں رہتے ہیں لیکن امریکیوں سے لاتعلق ہیں۔

آج کی خبر یہ ہے کہ وائس آف امریکا کے تمام مستقل اور غیر مستقل ملازمین کو ویسی ہی ای میل ملی ہے، جیسی چار سال پہلے مجھے ملی تھی۔ ان سب کو بھی دفتر سے اسی طرح دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے جیسی مجھے کی گئی تھی۔ ان سب کو بھی ایک دن اسی طرح دفتر بلایا جائے گا، جیسے مجھے بلایا گیا تھا۔ ان سب سے بھی کارڈ چھین لیے جائیں گے اور سامان اٹھاکر چلے جانے کو کہا جائے گا۔ انھیں بھی کوئی الوداع نہیں کہے گا۔

بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ وائس آف امریکا کس طرح کا ادارہ تھا۔ بعض لوگ اس کا موازنہ بی بی سی سے کرتے تھے۔ بی بی سی کی نشریات برطانیہ میں دیکھی جاتی ہیں۔ وائس آف امریکا کی نشریات امریکا میں نہیں دیکھی جاتی تھیں۔ یہ امریکی آئین کے خلاف تھا۔ اسے صرف غیر ملکوں میں امریکی سرکار کا موقف نشر کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا تھا۔

جب میں نے وائس آف امریکا جوائن کیا تو اس کے وسائل دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں سوچتا تھا کہ بی بی سی تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ اگر یہ فل پوٹینشل یعنی تمام امکانات کے مطابق چلایا جائے تو اس کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جل سکتا۔ لیکن میں نے وہاں کام کرنے والوں کو دیکھا اور سمجھ گیا کہ اس کی ناکامی کا سبب کیا ہے۔

وہاں صحافی کم تھے، سرکاری کلرک زیادہ۔ انھیں آزادی اظہار کی نہیں، اپنی نوکری کی پرواہ رہتی تھی۔ اس کے لیے وہ محلاتی سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔ بس مجھے اگلا گریڈ مل جائے۔ دوسرا کوئی آگے نہ بڑھ جائے۔ خطرے بننے والے کا پتہ پہلی فرصت میں کاٹ دیا جاتا تھا۔

میں یہ واقعہ لکھ چکا ہوں کہ میں نے نیا نیا جوائن کیا تھا، ایک دن ایک پشتون خاتون میرے پاس آئیں۔ وہ سوشل میڈیا کی وجہ سے مجھے جانتی تھیں۔ انھوں نے بے حد حیران ہوکر کہا، مبشر صاحب، آپ کو یہاں کس نے رکھ لیا۔ یہاں تو سب گل محمد ہیں۔ آپ جیسا شخص کیسے برداشت کریں گے۔ میں نے کہا، میں معمولی سا کنٹریکٹ ملازم ہوں۔ مجھ سے کسی کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا، آپ کو جلد لگ پتا جائے گا۔

اس کے بعد سینئر براڈکاسٹر اسد نذیر صاحب نے مجھے کئی بار تنبیہہ کی۔ وہ کہتے تھے، یہ تم کیا ہر وقت کام مانگتے رہتے ہو۔ چپ کرکے بیٹھے رہا کرو۔ ہر شخص روزانہ ایک آدھ رپورٹ بناتا ہے۔ تم بھی اس سے زیادہ کام نہ کرو ورنہ سب دشمن ہوجائیں گے۔ چار دن میں تمھیں نکال دیا جائے گا۔ یہاں کام کرنے والے کو اچھا آدمی نہیں سمجھا جاتا۔ میں ہنستا رہتا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا، وہ سچ کہتے تھے۔

وائس آف امریکا جیسے چار ادارے اور تھے۔ یہ پانچوں ایک امریکی ادارے یو ایس اے جی ایم کے تحت کام کرتے تھے۔ ان میں ایک کا نام ریڈیو فری یورپ تھا جو سوویت یونین کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ سوویت یونین کو ختم ہوئے 35 سال ہوگئے لیکن یہ ریڈیو اپنی مہا گانے میں لگا تھا۔ اب اس کی فنڈنگ بھی روک دی گئی ہے۔

یو ایس اے جی ایم کو امریکی حکومت سے فنڈ ملتے تھے۔ ایک بار سروس چیف نے بتایا کہ سال کے بجٹ سے کچھ پیسے بچ رہے ہیں۔ کچھ پروجیکٹ بناکر ان پیسوں کو جلدی خرچ کرنا ہے۔ میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں؟ انھوں نے کہا، اگر ساری رقم خرچ نہ کریں تو اگلی بار پیسے کم ہوسکتے ہیں۔ اس لیے تمام سروسز زیادہ پیسے مانگتی ہیں اور وقت سے پہلے سب خرچ کرکے حکومت کو بتایا جاتا ہے کہ پچھلا بجٹ کم پڑگیا تھا، اگلی بار زیادہ پیسے منظور کریں۔

پاکستان کی سروس کا احوال سن لیجے۔ جب میں وہاں تھا تو ریڈیو کی نشریات باقاعدگی سے پیش کی جاتی تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ سننے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ اسے جس ٹاور سے ریڈیو اسٹیشنوں تک جانا چاہیے تھا، وہ خراب پڑا تھا۔ ویب سائٹ میرے جانے کے کچھ عرصے بعد پاکستان میں بلاک ہوئی اور شاید آج تک نہیں کھلی۔ ٹی وی کا بیس منٹ کا پروگرام کسی معمولی ریٹنگ والے چینل پر چلتا تھا لیکن اس میں فوج کے خلاف کوئی خبر شامل نہیں ہوتی تھی۔ کبھی شامل ہوجاتی تو فورا فون آتا کہ اسے آپ ایڈٹ کرکے بھیجیں ورنہ ہم یہاں ایڈٹ کردیں گے۔ پاکستان کے بعض ادارے سخت سنسرشپ کے باوجود اس سے بہتر صحافت کررہے ہیں۔

اردو سروس میں کیا کچھ چلتا رہتا تھا، اس کا انداز اس بات سے لگائیں کہ میرے جوائن کرنے سے پہلے سروس چیف کو ہراسمنٹ کے کیس میں فارغ کیا گیا۔ یہ کام مکمل منصوبہ بندی سے کیا گیا اور ایسے کہ میں افسانہ لکھ سکتا ہوں۔ ان سابق سروس چیف نے مجھے تھوڑی سی بات بتائی لیکن زیادہ تفصییل اس سازش میں شریک اگلے سروس چیف نے فخر سے بیان کی۔ اس سے پہلے ایک کیمرامین کو ہراسمنٹ کے الزام پر نکالا گیا۔ وہ کیمرامین بھی ایک تقریب میں ملے اور کچھ اشارتا بتایا کہ انھیں کیسے پھنسایا گیا۔ پھر میرے سامنے ایک ویڈیو ایڈیٹر کو اسی الزام پر فارغ کیا گیا۔

اسٹاف کا حال یہ تھا کہ چالیس افراد کی ٹیم میں میاں بیوی کے تین جوڑے کام کرتے تھے۔ ان کے علاوہ تین ایسی خواتین کارکن تھیں جن کے شوہر دوسرے شعبوں میں کام کرتے تھے۔ ایک کی ساس دوسری سروس میں تھیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ان لوگوں میں کوئی کمی تھی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسوں کی ملازمت کو کبھی خطرہ نہیں ہوا۔

امریکا میں اکثر میاں بیوی دونوں جاب کرتے ہیں۔ کسی ایک کی ملازمت ختم ہوجائے تو مسلئہ تو ہوتا ہے لیکن ایک سیلری آتے رہنے سے برا بھلا وقت گزارا جاسکتا ہے۔ وائس آف امریکا میں جو جوڑے کام کررہے تھے، وہ سب سے زیادہ فائدہ اٹھارہے تھے اور اب وہی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔(مبشرزیدی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں