تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ایک خبر کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی نے بچوں کے اسکول بیگز کے وزن کی حد مقرر کردی، خلاف ورزی کرنے والے اسکول پرنسپلز کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔کے پی اسمبلی نے اسکول بیگز لیمی ٹیشن آف ویٹ بل2020 کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت بچوں کے اسکول بیگز کا وزن ان کی جماعت کے مطابق ہوگا۔اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایکٹ کے تحت ہر کلاس کے لیے الگ الگ بیگ کے وزن کا تعین کیا گیا ہے، پہلی جماعت کے بچوں کے لیے بیگ کا وزن 2.4 کلوگرام ہوگا، اور جماعت دوئم کے لیے2.6 کلوگرام وزن مقرر کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ منظور شدہ بل کے مطابق تیسری جماعت کے لیے3 کلو گرام وزن مقرر جبکہ ہائی سیکنڈری کے طلبہ کے لیے بیگ کا وزن 7کلو گرام تک ہوگا۔بل میں مزید کہا گیا ہے کہ اسکول بیگ میں زائد وزن پر صوبے بھر کے سرکاری اسکولوں کے پرنسپلز کیخلاف سخت تادیبی کارروائی ہوگی اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر2لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
ہمارے خیال میں تو پہلی اور دوسری کلاس تک بچوں کا بستہ ہونا ہی نہیں چاہیئے۔۔ سلیٹ یا تختی ٹائپ کوئی چیز ہو جس پر لکھنے کی پریکٹس کرائی جائے باقی اسکول میں ٹیچرز بچوں کے اخلاق، ادب آداب، رکھ رکھاؤ پر زیادہ توجہ دیا کریں۔۔یعنی انہیں ’’مینرز‘‘ سکھائیں۔۔ گنتی، اے بی سی، پہاڑے یاد کرائیں۔۔ ہوم ورک کا ٹنٹا معصوم بچوں پر واقعی کسی بوجھ سے کم نہیں۔۔جتنے بھاری بھرکم بستے طلبا کے ہوتے ہیں،یقین کریں بستہ بے یا بستہ الف کا بدمعاش بھی اتنا وزن نہیں اٹھا سکتا۔۔ اتنے بھاری بستے ہونے کے باوجود ہوتا کیا ہے؟ نتیجے کے اعلان کے بعد۔۔پہلی لڑکی (روتے ہوئے): آں! پھر سے اکیانوے فیصد۔۔ دوسری لڑکی(روتے ہوئے): تین بار دہرانے کے بعد بھی ترانوے فیصد۔۔تیسری لڑکی (بہت زیادہ روتے ہوئے): میں ترانوے فیصد نمبرز کے ساتھ مما کو کیا منہ دکھائوں گی؟چوتھی لڑکی (سب سے زیادہ روتے ہوئے): صرف چھیانوے فیصد۔۔کہاں کمی رہ گئی تھی۔۔۔رزلٹ آنے کے بعد لڑکوں کا ردعمل کچھ یوں ہوتا ہے۔۔پہلا لڑکا:تیرے بھائی نے اس بار فیل ہونے کا سلسلہ ختم کر دیا۔۔۔اس بار پورے چوالیس فیصد۔۔دے تالی۔۔دوسرا لڑکا: پاپا تو ناچ اٹھیں گے جب انھیں پتا چلے گا ان کا بیٹا پاس ہو گیا۔۔تیسرا لڑکا: وہ تو سر نے نقل کرنے دے دی تو بیالیس فیصد آ گئے ورنہ بینڈ بج گیا تھا جانی۔۔۔چوتھا لڑکا: تیرا بھائی باڈر کو ہاتھ لگا آیا ہے۔۔پورے تینتیس فیصد۔۔۔نا ایک کم نا ایک زیادہ۔۔جی او شیرا۔۔
بچے قدرتی طور پر ذہین ہوتے ہیں،ایسا ہمارا دعویٰ ہے، بچے کندذہن یا ’’غبی‘‘ ماحول کے حساب سے بن جاتے ہیں۔۔ ورنہ پیدائشی طور پر ہر انسان وہی چالیس گرام کا دماغ لے کر پیدا ہوتا ہے، اب یہ انسان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس دماغ کاکتنا استعمال کرتا ہے؟؟ ہم بچپن سے ہی ضرورت سے زیادہ ذہین تھے، حاضرجوابی میں کسی فیصل آبادی سے کم نہیں تھے۔۔ایک بار ٹیچر نے پوچھا، اکبر کی وفات کے بعد کیا ہوا تھا؟؟ ہم نے برجستہ کہا۔۔ جناب ہونا کیا تھا، لوگوں نے نہلادھلا کر دفنا دیا۔۔ہمارے دوست نے پوچھا،پیپرز کب سے ہورہے ہیں، ہم نے کہا ،یکم مارچ سے۔۔پوچھنے لگا، کوئی تیاری بھی کی ہے۔ہم نے برجستہ کہا۔۔ہاں، ایک نیا قلم خریدا ہے، نئے کپڑے سلوائے ہیں، نیا جوتا اور نئی گھڑی خریدی ہے۔۔۔ٹیچر کو شاید کسی بات پر غصہ آگیا،کہنے لگا۔۔ میں نے تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے کہ سبق یاد کیا کرو۔۔ہم نے بڑی معصومیت سے کہا۔۔سرجی صرف چار مرتبہ۔۔ایک بار ایک ٹیچر نے پوری کلاس سے سوال کیا۔۔ بچو،ایسی جگہ کا نام بتاؤ،جسے آدمی بنانے کے باوجود وہاں نہیں جاسکتا؟؟پوری کلاس سٹپٹا کر رہ گئی، ہم نے فوری ہاتھ کھڑا کردیا، ٹیچر کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ، چلو کسی ایک کوتو جواب آتا ہے۔۔ہمیں کھڑا کیا اور کہا، ہاں بیٹا،بتاؤ وہ کون سی جگہ ہے؟؟ ہم نے برجستہ کہا۔۔لیڈیز ٹوائلٹ۔۔
اچھا،معصومیت اور برجستگی کا امتزاج بچپن سے ہی تھا، ہم اپنے اساتذہ تک کو باتوں میں الجھانے کا فن خوب جانتے تھے۔۔ایک بار انہوں نے پوچھا۔۔ ذرا بتاؤ تو سہی ہاتھی کہاں پائے جاتے ہیں؟۔۔ہم نے جلدی سے کہا۔۔ جناب! ہاتھی اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کے کھو جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ٹیچرنے ہنس کرپھرپوچھا۔۔ بیٹا میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ ہاتھی کہاں ملتے ہیں؟۔۔معصومیت کے ساتھ ہم نے دوبارہ جوب دیا۔۔جہاں اور ہاتھی ہوں وہاں۔۔ٹیچر کو غصہ آنا اسٹارٹ ہوگیا۔۔دانت پیستے ہوئے بولے۔۔ اچھا۔۔ یہ تو تمہیں معلوم ہونا ہی چاہیے کہ ان کا حافظہ بہت اچھا ہوتا ہے۔۔ کیوں؟ ہم نے ٹیچر کے غصے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔۔ جناب ہاتھیوں کے پاس باتیں ہی کون سی ہوتی ہوں گی جو وہ بھول جائیں تو پریشانی ہو۔۔پھر نجانے کیا ہوا،ٹیچر فوری کلاس سے باہر چلے گئے۔۔ ایک روزسائنس کے ٹیچر ہمیں پڑھارہے تھے، موضوع شاید ’’دوران خون‘‘ تھا۔۔اختتام پر سوال کردیا۔۔ اگر میں سر کے بل کھڑا ہو جاؤں تو سارا خون میرے سر میں جمع ہو جائے گا اور میرا چہرہ لال ہو جائے گا۔ لیکن جب میں سیدھا کھڑا ہوتا ہوں تو میرے پاؤں لال نہیں ہوتے،بتاؤ کیوں؟؟۔ہم نے فٹ سے کہا۔۔ سر، آپ کے پاؤں خالی نہیں ہیں ناں۔۔ہماری ذہانت کا کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔۔ایک بار استاد نے ململ کو جملے کو میں استعمال کرنے کا کہا۔۔ہم نے کہا۔۔ہمیں خوب مل مل کر نہانا چاہیئے۔۔استاد نے برف کی مونث پوچھی۔۔ہم نے جھٹ سے’’برفی‘‘ کہہ دیا۔۔
کبھی کبھی استاد اتنے فضول قسم کے سوال کرتے تھے کہ ہمارا انہیں چپ کرانا ہی بنتا تھا، اب ہم اتنے بدتمیز توتھے نہیں کہ اپنے ٹیچر کو ڈانٹ کر چپ کراتے، ہمارا طریق واردات ایسا ہوتاتھا کہ ٹیچر کے فضول سوال کا اوٹ پٹانگ جواب دیا کرتے تھے۔۔ جیسا ایک ایک ٹیچر نے پوچھا۔۔تمہارے ابو کتنے سال کے ہیں؟؟ہم نے کہا۔۔سر جتنے سال کا میں ہوں۔۔ ٹیچر نے حیرت سے پوچھا ، وہ کیسے؟؟ ہم نے ٹیچر کو اپنے جواب کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ۔۔ سر جس دن میں پیدا ہوا اسی دن تو وہ ابو بنے تھے۔۔ہماری ذہانت سے ٹیچر ہی نہیں ابا بھی پریشان رہتے تھے۔۔ ایک بار ہم اپنے ابا کے ساتھ ہالی وڈ کی کوئی جنگی مووی دیکھ رہے تھے۔ ۔جنگ کا سین تھا۔۔کچھ کمانڈوز حملے کے لیے جارہے تھے۔۔ہم نے حیرت سے انہیں دیکھا اور ابا سے سوال کیا۔۔ابا،ان لوگوں نے اپنے چہرے پر رنگ کیوں لگایاہواہے؟؟ ابا نے ہمیں سمجھاتے ہوئے بتایا کہ۔۔ بیٹا! یہ کمانڈوز ہیں اور حملہ کرنے کی تیاری میں ہیں۔۔تھوڑی دیر بعد اماں جب میک اپ کرکے کمرے میں داخل ہوئی توہم نے چیختے ہوئے کہا۔۔ ابووووووو! بچ کے۔۔ امی حملہ کرنے آرہی ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہفتے میں دو اتوار ہونے لازمی ہیں،ایک ہفتے بھرکے کام نمٹانے کے لیے اور دوسرا مکمل آرام کے لیے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔