تحریر: جاوید چودھری۔۔
دنیا میں ایک زمانہ برف کا بھی گزرا ہے‘ اس زمانے میں پورا کرہ ارض منجمد تھا‘ مشرق سے مغرب تک برف ہی برف تھی‘ اس آئس ایج میں انسان کے پاس صرف ایک ہی کام تھا اور وہ کام تھا خوراک کی تلاش‘ انسان زندگی کا دھاگا قائم رکھنے کے لیے برفوں میں مارا مارا پھر رہا تھا۔قدرت نے ’’رین ڈیئر‘‘ کو یہ اہلیت بخشی ہے یہ برف سونگھ کر اس کے نیچے چھپا سبزہ تلاش کر لیتا ہے‘ یہ اس کے بعد سم مار کر برف توڑتا ہے اورگھاس اور پتے نکال کر کھا لیتا ہے‘ انسانوں کو جب رین ڈیئر کی اس اہلیت کا پتا چلا تو یہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے‘ رین ڈیئر جہاں سم مارتا تھا یہ بھی وہاں برف توڑنے میں مصروف ہو جاتے تھے اور بالآخر خوراک تک پہنچ جاتے تھے۔
انسان نے گوشت کھانا بھی اسی دور میں شروع کیا‘یہ رین ڈیئرز کو بھون کر کھا جاتے تھے‘ برف میں خوراک کی تلاش اور رین ڈیئرز کا پیچھا یہ مجبوری انسان کو روس سے امریکا لے گئی‘ ہمارے ڈی این اے میں درج ہے دس مرد اور عورتیں رین ڈیئرز کا پیچھا کرتے ہوئے روس سے الاسکا پہنچ گئے تھے‘ اس دوران زمین کا درجہ حرارت بڑھ گیا‘ برفیں پگھل کر پانی بن گئیں اور زمین سات حصوں میں تقسیم ہو گئی‘ الاسکا پہنچنے والے لوگ چلتے چلتے امریکا کے وسط میں آ گئے‘ یہ بعد ازاں ’’ملٹی پلائی‘‘ ہوئے اور ’’مایا سولائزیشن‘‘ کی بنیاد رکھ دی جب کہ پیچھے رہ جانے والے لوگوں کی نسلیں روس‘ سینٹرل ایشیا‘ برصغیر‘ مشرق بعید‘ مشرق وسطیٰ‘ یورپ اور افریقہ میں پھیلتی چلی گئیں۔دنیا اس وقت براعظموں میں تقسیم ہو گئی‘ براعظموں کے درمیان سمندر تھے اور ہر سمندر نے ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے الگ رکھا ہوا تھا‘ سمندروں کی وجہ سے تہذیبیں دوسری تہذیبوں کی بیماریوں سے محفوظ تھیں‘ شادی کی روایت نے اس دور میں جنم لیا ‘ ہمارے ڈی این اے کی یادداشت میں درج ہے دنیا میں ایک ایسا وقت آیا تھا جب پورے کرہ ارض پر صرف دو ہزار لوگ بچ گئے تھے‘ باقی آبادی نامعلوم بیماریوں کی وجہ سے ختم ہو گئی تھی۔
اس زمانے میں عورت محض عورت اور مرد صرف مرد تھا‘ یہ جانوروں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ اختلاط کرتے تھے لیکن پھر انسان کو پتا چلا اس غیرمحفوظ جنسی تعلق کی وجہ سے ایک انسان کی بیماریاں دوسرے انسانوں تک منتقل ہو رہی ہیں چناں چہ موت کے خوف نے انسان کو ’’ون مین وومین‘‘ پر مجبور کر دیااور اس نے شادی کرنا شروع کر دی‘ نکاح اور ولیمہ بھی اس دور کی روایت ہے۔نکاح اعلان ہوتا تھا’’یہ دونوں میاں بیوی ہیں‘‘ اور ولیمے کا مطلب ہوتا تھا علاقے کے تمام لوگ اس رشتے سے واقف ہو جائیں تاکہ یہ غیرمحفوظ اختلاط کی غلطی نہ کریں اور یوں بیماریوں سے محفوظ رہیں‘ یہ تکنیک کارگر ثابت ہوئی اور بیماریاں رک گئیں لیکن پھر انسان نے سفر کے سمندری ذریعے ایجاد کر لیے‘ بحری جہاز بنائے اور براعظم براعظموں سے رابطے میں آ گئے‘ یہ بحری رابطے ایک خطے کی بیماریاں دوسرے خطوں تک پہنچانے لگے ‘ یورپ میں طاعون پھیلا تو اس نے ایشیا اور افریقہ کو بھی لپیٹ میں لے لیا‘ ٹی بی آئی تو یہ میڈی ٹیرین سی تک پوری دنیا میں لاشیں بچھاتی چلی گئی اور چیچک‘ خناق‘ کالی کھانسی اور خسرہ آیا تو یہ بھی چند ماہ میں پوری دنیا میں پھیل گیا۔انسان نے ان اموات سے سیکھا آپ ہر شخص کو فوری طور پر اپنے شہر‘ اپنے ملک میں داخل نہ ہونے دیں چناں چہ سمندروں کے کنارے احاطے بنا دیے گئے اور بحری جہازوں سے اترنے والے لوگوں اور عملے کے لیے40 دن ان احاطوں میں رہنا لازم قرار دے دیا گیا‘ یہ 40 دن کیوں؟ انسان نے تجربوں سے سیکھا تھا ہمارے جسم میں چالیس دن بعد ہرچیز تبدیل ہو جاتی ہے‘ صرف انسان کے دماغ‘ دل اور آنکھوں کے خلیے مستقل ہوتے ہیں‘ یہ نئے نہیں بنتے‘ باقی سارا جسم خود کو بناتا اور توڑتا رہتا ہے۔
یہ شکست وریخت زیادہ سے زیادہ چالیس دن میں مکمل ہو جاتی ہے چناں چہ اگر انسان کے جسم میں کوئی بیماری موجود ہے تو یہ چالیس دن میں سامنے آ جاتی ہے لہٰذا سمندروں کے کنارے آباد شہروں کی انتظامیہ مسافروں اور عملے کو 40 دن تک احاطے میں رکھتی تھی جس کے بعدصحت مند لوگوں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی اور بیمار لوگوں کو واپس بھجوا دیا جاتا تھا‘ چالیس دن کا یہ سلسلہ فرانس میں شروع ہوا تھا‘ فرنچ زبان میں چالیس کو قروئین اور دن کو ٹائین کہا جاتا ہے چناں چہ اس مناسبت سے چالیس دن کے اس قیام کو قوارنٹائین (قرنطینہ) کہا جانے لگا۔فرانس کا یہ تجربہ کام یاب ہو گیا‘ پوری دنیا نے اسے کاپی کیااور متعدی امراض کنٹرول ہو گئے لیکن پھر کولمبس نے 1492 میں امریکا دریافت کر لیا جس کے ساتھ ہی وہ لوگ دنیا سے مل گئے جن کے آباؤاجداد ’’آئس ایج‘‘ میں رین ڈیئر کا پیچھا کرتے ہوئے الاسکا کے ذریعے امریکا پہنچے تھے‘ یہ لوگ اس وقت تک جانوروں کے ساتھ رہتے تھے‘ ان میں شادی کا انسٹی ٹیوٹ بھی موجود نہیں تھا‘ یہ جانوروں کی طرح اختلاط کرتے تھے لہٰذا ان میں وہ تمام بیماریاں موجود تھیں جن پر ہماری دنیا قابو پا چکی تھی چناں چہ کولمبس جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس لوٹا تویہ ماضی کی تمام بیماریاں ساتھ لے آیا‘ 16 ویں اور17ویں صدی میں فرنچ‘ پرتگالی‘ ڈینش‘ برٹش اور ڈچ جہاز ران بھی امریکا پہنچ گئے۔یہ بھی واپسی پر بیماریوں کے تحفے لے آئے چناں چہ ایک ایسا وقت آ گیا جب پورا یورپ بیمار ہو چکا تھااور یہ بیماریوں سے بچنے کے لیے فرانس کی طرح ہر پورٹ پر قرنطینہ بنا نے پر مجبور ہو گیا تھا‘ بحری سفر کرنے والا ہر شخص اس قرنطینہ میں چالیس دن پورے کیے بغیر ملک میں داخل نہیں ہو سکتا تھا‘ 1928 میں اینٹی بائیوٹک ایجاد ہو گئیں‘ بیماریوں کے بیکٹیریاز کا علاج ممکن ہو گیاجس کے بعد قرنطینہ ختم ہوتا چلا گیا۔
آج آپ کو کسی پورٹ پر 40 دن انتظار نہیں کرنا پڑتا‘ اس کی وجہ بلڈ ٹیسٹ اور اینٹی بائیوٹک ہیں‘ ڈاکٹر کسی بھی انسان کا خون ٹیسٹ کرتے ہیں‘ اگر بیماری نکل آئے تو اینٹی بائیوٹک کے ذریعے اس کا علاج شروع کر دیا جاتا ہے اور یہ چند گھنٹے بعد محفوظ ہو جاتا ہے یوں انسان نے بیماریوں کا تدارک کر لیا لیکن قدرت انسان اور انسانی تدبیر سے لاکھوں کروڑوں گنا تگڑی ہے چناں چہ اس نے نئے انداز سے حملے شروع کر دیے۔بیکٹیریا کے بعد وائرس شروع ہو گئے‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے بیکٹیریا اور وائرس میں کیا فرق ہے؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں ہم انسانوں میں 37 ٹریلین باڈی سیلز ہوتے ہیں‘ ہمارا پورا وجود ان سیلز (خلیوں) سے بنتا ہے جب کہ ہمارے جسم میں 39 ٹریلین اچھے برے بیکٹیریاز ہوتے ہیں‘ اچھے بیکٹیریاز ہماری زندگی کی گاڑی چلاتے ہیں‘ یہ خوراک ہضم کرتے ہیں‘ ہمارا خون بناتے ہیں اور ہمیں حرکت پر مجبور کرتے ہیں جب کہ برے بیکٹیریا ہمیں بیمار بناتے ہیں‘ یہ ہمیں کم زور اور لاغر کرتے ہیں۔
ہمارے جسم کے برے بیکٹیریا (مثلاً پس پیدا کرنے والے بیکٹیریا) اینٹی بائیوٹک سے ہلاک ہو جاتے ہیں جب کہ وائرس بیکٹیریا سے مختلف ہوتا ہے‘ اس پر اینٹی بائیوٹک کا اثر نہیں ہوتا ‘یہ ہمیں بیمار کیے بغیر ختم نہیں ہوتا چناں چہ انسان کو جب بھی وائرل اٹیک ہوتا ہے تو ادویات اس پر بے اثر ہو جاتی ہیں‘ یہ صرف اپنی قوت مدافعت کے ذریعے ہی بیماری سے باہر آتا ہے۔انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا‘ وائرس زیادہ سے زیادہ 14 دنوں میں اپنا آپ دکھا دیتا ہے‘ یہ بیماری کو ظاہر کر دیتا ہے‘ آپ نے دیکھا ہو گا حکومتیں کورونا سے متاثر ہونے والے علاقوں سے آنے والے لوگوں کو14دن قرنطینہ میں رکھتی ہیں‘ دوسرا دنیا میں اگر کورونا کا کوئی علاج موجود نہیں توپھر 97 فیصد مریض ٹھیک کیسے ہو جاتے ہیں؟ یہ لوگ اپنی قوت مدافعت کے ذریعے ٹھیک ہوتے ہیں‘ آرام کرتے ہیں‘ اچھی خوراک کھاتے ہیں اور ٹینشن فری رہتے ہیں چناں چہ یہ ایک دو ہفتوں میں صحت مند ہو جاتے ہیں باقی رہ گیا یہ سوال کہ حکومت انھیں ’’آئسو لیشن‘‘ میں کیوں رکھتی ہے تو اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے۔
مریض کورونا کے وائرس دوسرے لوگوں تک منتقل نہ کرسکیں چناں چہ میری آپ سے درخواست ہے آپ اگر خود اور دوسروں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ اپنے اپنے گھروں میں ایک کمرے کا قرنطینہ بنا لیں‘ جس بھی شخص میں کورونا کی علامتیں ظاہر ہوں اسے اس کمرے تک محدود کر دیں‘ اس سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھیں‘ فون پر بات کریں اور خوراک کا ذخیرہ بھی ایک ہی بار اسے دے دیں‘ مریض کمرے میں رہے‘ کتابیں پڑھے‘ ٹی وی دیکھے‘ موبائل فون پر ویڈیوز دیکھے‘ دس دس‘ پندرہ پندرہ گھنٹے سوئے اور ہر دس منٹ بعد دو گھونٹ پانی پیے‘ یہ ان شاء اللہ دس دن میں صحت یاب ہو جائے گا۔
ہمیں یہ بات پلے باندھنا ہوگی یہ آسمانی آفت ہے‘ یہ اپنے وقت پر ہی ختم ہو گی‘ آپ اس میں اپنی بداعمالیاں یا گناہ تلاش نہ کریں‘ آفتیں آتی ہیں اور اپنا وقت گزار کر چلی جاتی ہیں چناں چہ آپ بھی قرنطینہ میں بیٹھ کر اس کے جانے کا انتظار کریں‘ یہ کم ہو رہی ہے‘یہ ان شاء اللہ اگلے پندرہ دن میں ختم ہو جائے گی‘ آپ نے صرف 15 دن کا قرنطینہ لینا ہے اور بس۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔