آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری بارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے روزمیڈیا کتنا قید کتنا آزاد؟ کے عنوان سے منعقد اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا ہے کہ آج میڈیا پر اگر کوئی پابندی لگانے کی کوشش کرے تو اس کا فائدہ نہیں ہو رہا خبر سب کو مل جاتی ہے لہٰذا اب ڈئیلاگ ہونا چاہئے، آج اگر صحافت آزاد ہے بھی تو صحافی آزاد نہیں ہے، مزاحمت دم توڑ رہی ہے اس لئے صحافت کنٹرول نظر آتی ہے۔ مقررین میں صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی، مظہر عباس، اویس توحید، عاصمہ شیرازی اور عامر ضیاء شامل تھے تقریب کی نظامت وسعت اللہ خان نے کی، صوبائی وزیر اطلاعات سید غنی نے کہا کہ آزادی اور قید کے معیار اپنے اپنے ہیں۔آج جو میڈیا پر اگر کوئی پابندی لگانے کی کوشش کرے تو اس کا فائدہ نہیں ہو رہا خبر سب کو مل جاتی ہے لہٰذا اب ڈئیلاگ ہونا چائیے۔ مظہر عباس نے کہا کہ آج اگر صحافت آزاد ہے بھی تو صحافی آزاد نہیں ہے۔ اب کنفیوژن ہے۔ اگر کوئی غائب ہو گیا تو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہے یہ خوف آزادی کو سلب کرتا ہے۔۔ اگر صحافی کو معاشی فکر لاحق ہو جائے تو آزادی اظہار پر کون بات کرے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے لڑنا چھوڑ دیا ہے۔ جو احتجاج سڑکوں پر ہوتے تھے وہ کانفرنسز تک محدود ہو گئے اسی لیے لڑانے والے زیادہ مضبوط ہو گئے۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ آج ہم کنٹرول جمہوریت اور کنٹرول صحافت میں ہیں۔ مگر ہمیں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چائیے۔ ہم اشاروں میں بات کرتے ہیں کھل کر نہیں کیوں کہ ہم مصلحت اور معاشرہ نظریہ ضرورت کا شکار ہے۔ عامر ضیاء نے کہا کہ پہلے کے مقابلے میں آج حالات بہتر ہیں ہم آگئے آئے ہیں آج کوئی کسی خبر کو روک نہیں سکتا۔ اس وقت بڑے میڈیا گروپس دباو کا شکار ہیں۔ اویس توحید نے کہا کہ نیشنل مفاد کو اگر لوگوں سے محفوظ رکھنے کی فکر ہو جائے پھر آزادی متاثر ہوتی ہے میڈیا تو سوسائٹی کا حصہ ہے۔ بنیادی اصول تبدیل ہونے کی ضرورت ہے میڈیا پر نان اسٹیٹ ایکٹر کی طرف سے سنسر شپ ہے۔ مزاحمت دم توڑ رہی ہے اس لئے صحافت کنٹرول نظر آتی ہے۔
بڑے میڈیا گروپس دباؤ کا شکار۔۔۔؟؟
Facebook Comments