تحریر: عادل پرویز
سن 2008 میں خوش قسمتی سے اس وقت کے سب سے بڑے نیوز ٹیلی ویزن نیٹ ورک میں کام کا موقع ملا۔ نوکری ملی تو خوشی ملی، پیسہ ملا۔ پھر عزت اور شہرت۔ آفس میں خود کو سمجھدار سمجھنے والوں نے بتایا کہ بھائی نیوز ٹی وی کے بیورو میں بیورو چیف ہی کی چلتی ہے۔ اس سے ان بن نہ کرنا ورنہ کسی بھی وقت نکلواسکتا ہے۔ لیکن ہماری قسمت میں کبھی افسران کے گروپ میں شامل ہونے کی خواہش تھی اور نہ قسمت۔۔ بس کام ہی کرنا نصیب میں تھا جو کیا۔ پھر وقت آیا کہ آل ان آل کہلانے والے بڑوں میں پھوٹ ڈل گئی ،، معاملہ بگڑا اور بالآخر دونوں برج گرگئے۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا ہوگا۔ پھر مجھ جیسے سستے ورکر نے سب کو کہا کہ بھائیوں اور بہنوں جن کو تم سہارا سمجھتے تھے، ادارے نے انہی سے نوکری چھین لی۔ لیکن پھر نیا افسر آیا اور نئی داستانیں شروع ہوئیں۔ وہی کیریکٹر اور وہی کہانیاں ،، لیکن کچھ عرصہ سکون سے گزرا اور پھر دوبارا ڈاؤن سائزنگ کی وبا پھیلی۔ اس بار تو بڑوں بڑوں کو وبا نے لپیٹ میں لے لیا۔ بیورو چیف کے ساتھ صحافتی تنظیم کے صدر اور ڈاؤن سائزنگ کے خلاف آواز اٹھانے والا بھی بیروزگار کردیاگیا۔ تو کہنے کا مطلب یہ کہ جن کو طاقت کا سرچشمہ ماناجاتا رہا۔ ان کی تو اپنی نوکریاں براڈ کاسٹ میڈیا میں محفوظ نہیں تو کسی اور کو کیا بچا ئیں گے۔ اگر کچھ ہے تو وہ آپ کی اپنی محنت اور کام سے لگن ہے۔ لیکن ایک بات تو پکی ہے کہ سیاستدان سے لے کر فوجی اور افسر شاہی سے لے کر مزدور طبقہ تک کے مسائل اجاگر کرنے والوں کی اپنی نوکریاں کبھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ سب کی زبان بننے والے میڈیا کی بربادی پر لوگ خوش ہیں ،، ناخوش نہیں۔(عادل پرویز)