تحریر: فدا عدیل۔۔
سوشل میڈیا کا انقلاب پوری دنیا کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ پہلے میڈیا کا لفظ صرف صحافت اور صحافیوں تک محدود ہوا کرتا تھا لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے اب غیر صحافی بھی ہاتھ میں ایسی طاقت لئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے دنیا میں اچھی اور بری دونوں قسم کی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہورہی ہیں۔ ہم صحافیوں کی اکثریت کو بھی معلوم نہیں کہ سوشل میڈیا پر کس قسم کا مواد شئیر کرنے پر کس قسم کی قانونی پابندیاں، جرمانے یا سزائیں لاگو ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کی آگاہی کے لئے دنیا بھر میں کام کیا جارہا ہے لیکن پاکستان کے اندر تاحال اس حوالے سے تشنگی اور ضرورت محسوس تو کی جارہی ہے مگر اس میدان میں حکومتی سطح پر کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس وقت پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سوشل میڈیا کا غیر سنجیدہ استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور صارفین کو کسی قسم کی سزا کی پرواہ ہے اور نہ سنگین نتائج کی فکر۔ ہمارے دوست اسد جان جنہوں نے پشاور سے صحافت کا آغاز کیا مگر آج وہ ایک منجھے ہوئے ٹرینر کی پہچان بھی رکھتے ہیں۔ اسد جان اس وقت سرچ فار کامن گراونڈ نامی ادارے کے ساتھ بطور کنٹری ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں پشاور میں ایک تربیتی ورکشاپ میں اسد جان کی بالمشانہ پریزینٹیشن سے مستفید ہونے کا موقع ملا تو احساس ہوا کہ سوشل میڈیا کے استعمال اور ڈیجیٹل سکیورٹی کے حوالے سے ہم کس قدر غیر محتاط اور لاعلم ہیں۔ اس ورکشاپ کا اہتمام انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے کیا گیا تھا۔ ورکشاپ کا مقصد صحافیوں کو ڈیجیٹل میڈیا اور سائبر کرائمز ایکٹ 2016 کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا تھا جس کے تحت ریاستی اہلکاروں اور پی ٹی اے کو لامحدود اختیارات دیئے گئے ہیں۔ ورکشاپ سے خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر فداخٹک نے بھی خطاب کیا۔ ورکشاپ میں پشاور کے جن صحافیوں نے شرکت کی، مجھے یقین ہے کہ اس قدر قیمتی معلومات اس سے قبل ان کو کسی بھی تربیتی سیشن میں نہیں ملی ہوں گی۔ سرچ فار کامن گراونڈ کے کنٹری ڈائریکٹر اسد جان نے شرکاء کو بتایا کہ سوشل میڈیا کے بعد اب روایتی میڈیا کے مقابلے میں ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کی اہمیت میں کمی آرہی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1997 میں پاکستان میں 4455 مختلف اخبارات شائع ہوتے تھے جن میں روزنامہ، ہفت روزہ اور ماہنامہ اخبارات شامل تھے لیکن 2020 میں ان اخبارات کی تعداد کم ہوکر صرف 425 رہ گئی ہے جن میں 346 رونامے، 17 ہفت روزے اور 58 ماہنامے شامل ہیں۔ اسی طرح اگر اخبارات و جرائد کی سرکولیشن کا جائزہ لیا جائے تو 2007 میں یہ 9.9 ملین تھی جو 2020 میں 3.1 ملین رہ گئی ہے۔
انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ ڈیجیٹل میڈیا روایتی میڈیا کو چیلنچ کرنے کے ساتھ نئے آنے والے صحافیوں کو روزگار کے نت نئے مواقع بھی فراہم کررہا ہے۔ تاہم صحافیوں کو بے شمار چیلجنز کا بھی سامنا ہے اور سائبر کرائمز ایکٹ 2016 کی شکل میں حکومت پاکستان نے متعدد پابندیاں بھی لگائی ہیں۔ انہوں نے اس قانون کی مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس قانون کے تحت نفرت انگیز تقریر، تنازع کھڑا کرنے کی کوشش یا مذہب اور فرقے کی بنیاد پر نفرت پھیلانے پر 5 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے یا بچوں کی نازیبا تصاویر یا وڈیو کو پھیلانے پر 7 سال قید اور پچاس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے لیکن اس قانون میں بہت سے ایسے سیکشنز ہیں جن کے تحت پی ٹی اے اور ریاستی اداروں کو لامحدود اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ فیصلہ کرسکیں کہ کیا قانونی ہے اور کیا غیر قانونی۔ اور ان اختیارات کے تحت سوشل میڈیا صارفین خصوصاََ صحافیوں کی آزادی کو محدود کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کئی مثالیں دیں جیسا کہ اس قانون کے تحت منفی مقاصد کیلئے ویب سائٹ قائم کرنے پر 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ، کسی کی تصویر بغیر اجازت شائع کرنے، بے ہودہ پیغامات بھیجنے یا سائبر مداخلت پر ایک سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ، حساس اور ممنوعہ معلومات تک غیر قانونی رسائی پر 3 ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ، غیر قانونی طریقے سے موبائل فون میں تبدیلی کرنے پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جاسکے گی اور سوشل میڈیا پر ایسے مواد کیخلاف کارروائی کی جاسکتی ہے جو قومی سلامتی کے منافی ہو یا جس میں اداروں کی تضحیک کی گئی ہو۔ اسد جان نے سوال اٹھایا کہ اس بات کو کس طرح ثابت کیا جائیگا کہ کوئی ویب سائٹ کسی منفی مقصد کیلئے بنائی گئی ہے یا جو معلومات دی گئی ہیں، قومی سلامتی کیخلاف ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ قومی سلامتی کی تعریف کیا ہے اور “منفی مقاصد” کیلئے ویب سائٹ کی تعریف کیا ہے کہیں پر درج نہیں اور اس کا تعین اس قانون کے تحت کیا جائے گا اور یوں کسی کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔ اسد جان کے مطابق آج نوجوان لڑکے لڑکیوں کی اکثریت جدید ٹیکنالوجی سے منسلک ہے۔ ہم چاہ کر بھی نوجوان نسل کو اب اس سے دور نہیں کرسکتے۔ مفید اعداد و شمار شئیر کرتے ہوئے اسد جان نے بتایا کہ پاکستان میں 27 فیصد لوگ انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں اور 46 ملین لوگ سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پانچ افراد میں سے ایک بندہ سوشل میڈیا استعمال کررہا ہے۔
اسد جان نے بتایا کہ پاکستان کی وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے سوشل میڈیا قوانین 2021 کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کے لئے پاکستان میں نئے قوانین وضع کئے گئے ہیں، ان قوانین کے تحت ان کمپنیوں پر تین مہینوں کے اندر اندر پاکستان میں اپنے مستقل دفاتر اور ڈیٹا بیس سرور قائم کرنے کے علاوہ کئی ذمہ داریاں لاگو کی گئی ہیں جن میں کسی بھی آن لائن مواد کو اگر مجاز حکام پاکستان کے قوانین کے مخالف پائیں تو سوشل میڈیا کمپنی پر لازمی ہوگا کہ وہ 24 گھنٹوں میں اس کو ڈیلیٹ کردیں۔ ہنگامی صورتحال میں سوشل میڈیا کمپنی کو ایسا چھ گھنٹوں میں کرنا ہوگا۔ نیشنل کورڈینیٹر ہی اس بات کا تعین کرے گا کہ ہنگامی صورتحال ہے یا نہیں۔ اسد جان نے جہاں مفید معلومات سے ورکشاپ کے شرکاء کو آگاہ کیا وہیں کچھ حد تک ڈرایا بھی۔ ڈرایا اس حوالے سے کہ ہم سوشل میڈیا پر جس انداز سے ایک دوسرے کی مٹی پلید کرنے میں مصروف ہیں، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ سوشل میڈیا صارفین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے تھا۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ بچے گا کون؟ یہاں تو ہر طبقے اور ہر سیاسی جماعت کے اندر نفرت کی توپیں نصب کی گئی ہیں جن سے ہر گزرتے سیکنڈ میں ایک دوسرے کے خلاف زہر آلود گولے برسائے جاتے ہیں۔ آپ ایک نظر ٹویٹر پر تو ڈالیں جہاں ماں بہن کی گالی پر شاباش دی جاتی ہے۔ پوری پوری بریگیڈ اس کام کے لئے بھرتی کی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ فیصلہ کون کرے گا کہ کس کا قبلہ درست ہے، کس کا غلط؟ اسد جان کا شکریہ جنہوں نے کم از کم اتنی آگاہی تو دے دی کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے حوالے سے قوانین کیا کیا ہیں اور سائبر کرائمز میں کیا کیا چیزیں آتی ہیں۔ اس ورکشاپ سے یہ بات بھی ایک بار پھر کم از کم مجھ پر واضح ہوگئی کہ پاکستان میں قانون توڑنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔(بشکریہ میدان)۔۔