تحریر: ڈاکٹر توصیف احمد خان۔۔
طاہر نجمی کا بچپن اور نوجوانی کے ابتدائی سال ملتان میں گزارے۔ بچپن سے کتابیں پڑھنے کا شوق شاید وراثت میں ملا تھا۔نچلے متوسط طبقہ سے تعلق تھا ، یوں ’’ آنہ ‘‘ لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھتے تھے۔ اسی زمانہ میں ابنِ صفی اپنے جاسوسی کے ناولوں کی بناء پر نوجوانوں میں مقبول تھے۔ طاہر نجمی ان ناولوں کے رسیا تھے ، پھر لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور کئی جاسوسی ناول لکھ دیے۔ کراچی آئے، کئی جگہوں پر چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں، پھر روزنامہ امن سے وابستہ ہوگئے۔ کبھی اپنے تحریر کردہ جاسوسی ناولوں کا ذکر نہیں کیا۔ ہمارے ایک دوست ناصر عباس کو ہمیشہ سے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق تھا۔ انھیں محلہ کی لائبریری سے طاہر نجمی کے تحریر کردہ ناول ہاتھ لگ گئے۔ اس زمانہ میں ان ناولوں کی پشت پر مصنف کی تصویر بھی چسپاں ہوتی تھی۔ ناصر عباس نے تصویر سے طاہر نجمی کی شناخت کی۔ جب میں نے پوچھا تو آہستگی سے بتایا کہ نوجوانی میں وہ ناول نگاری بھی کرتے تھے۔
روزنامہ امن میں افضل صدیقی ایڈیٹر تھے ، اجمل دہلوی نیوز ایڈیٹر تھے۔ اس وقت علی احمد خان ، ذاکر نسیم مرحوم ، مبشر منصور مرحوم اور افتخار قمر وغیرہ ڈیسک پر سب ایڈیٹر اور معین الحق فوٹوگرافر تھے۔ امن جیسے چھوٹے اخبارات کے لیے ریڈیو مانیٹرنگ خبروں کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ٹیپ ریکارڈر مارکیٹ میں نہیں آیا تھا۔ ریڈیو مانیٹر کو بہت تیزی سے ریڈیو کی خبروں نوٹ کرنی پڑی تھیں۔ اجمل دہلوی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ریڈیو کی خبریں مکمل طور پر صفحہ پر تحریر کرتے ہیں۔ طاہر نجمی نے اجمل دہلوی سے ریڈیو مانیٹرنگ کا طریقہ سیکھا۔ چند ہی مہینوں میں وہ ریڈیو مانیٹرنگ کے ماہر ہوگئے۔
ستر کی دہائی کے آخری برسوں اور 80ء کی دہائی میں خبررساں ایجنسیوںکی خبریں اخبار کے دفتر میں موجود ٹیلی پرنٹر پر موصول ہوتی تھیں۔ بڑے اخبارات کے پاس تو رپورٹر اور نامہ نگارہوتے تھے مگر چھوٹے اخبارات کا سارا دارومدار ٹیلی پرنٹر سے آنے والی خبروں پر ہوتا تھا ، یوں نیوز ڈیسک پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا تھا۔ طاہر نجمی چند برسوں میں خبر بنانے کے اتنے ماہر ہوگئے کہ پریس کلب میں یہ ذکر ہونے لگا کہ طاہر نجمی خبر بنانے میں اجمل دہلوی کا مقابلہ کرنے لگے ہیں۔ اس زمانہ میں منہاج برنا صحافیوں کے مسلمہ رہنما تھے اور ہر اخبار میں کراچی یونین آف جرنلسٹس کا یونٹ اور یونین ضرور ہوتی تھی۔ علی احمد خان جو بعد میں بی بی سی اردو سروس میں کام کرنے لندن چلے گئے، نے امن میں یونین بنانے کا عمل شروع کیا۔
افتخار قمر کے مشورہ پر خان صاحب نے حسن رضوی سے رابطہ کیا تھا جو مختلف اداروں میں یونین بنانے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ علی احمد خان یونین کے سیکریٹری جنرل بن گئے۔ انتظامیہ نے خان صاحب کو معطل کر دیا۔انھوں نے اپنی یاد داشتوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا کہ اسی وقت طاہر نجمی امن میں آئے تھے اور شاعری بھی کرتے تھے۔
علی احمد خان امن چھوڑ کر روزنامہ سن میں چلے گئے تو طاہر نجمی امن یونین کے سیکریٹری جنرل بن گئے۔ انتظامیہ نے ویج بورڈ کے نفاذ میں دیر کردی۔ کارکنوں کو ہراساں کرنے کی کوشش ہوئی مگر طاہر نجمی اور دیگر صحافی ثابت قدم رہے۔
انتظامیہ کو صحافیوں اور غیر صحافی عملہ کو ویج بورڈ کے مطابق تنخواہیں دینا شروع کردی گئیں۔ طاہر نجمی پہلے علی احمد خان، پھر منہاج برنا سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے احفاظ الرحمن اور محمود علی اسد وغیرہ کے ساتھ مل کر کے یو جے اور کراچی پریس کلب کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق کا سیاہ دور شروع ہوا۔ منہاج برنا کو پاکستان ٹائمز کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ کراچی میں پی ایف یو جے کی ایگزیکٹو کونسل اور ایپنک کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں پورے ملک سے صحافیوں کے نمایندے شریک ہوئے۔ طاہر نجمی کے یو جے کے جونیئر کارکن کی حیثیت سے ان اجلاسوں کو منظم کرنے والی کمیٹی میں فعال رہے۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے روزنامہ مساوات کے کراچی ایڈیشن کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔
منہاج برنا نے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ طاہر نجمی نے گرفتاری دینے والے کارکنوں میں اپنا نام درج کرایا۔ منہاج برنا اور کچھ صحافیوں کو حراست میں لیا گیا مگر پھر حکومت پیچھے ہٹ گئی۔ روزنامہ مساوات دوبارہ شایع ہونے لگا۔ حکومت نے روزنامہ مساوات کے لاہور ایڈیشن کو بند کیا اور بائیں بازو کے ہفت روزہ رسائل الفتح اور معیار پر پابندی لگا دی، پورے ملک سے صحافیوں کے دستے لاہور پہنچے اور گرفتاریاں دینا شروع کیں۔اس تحریک میں شامل صحافیوں ناصر زیدی ، اقبال جعفری اور خاور نعیم ہاشمی کو فوجی عدالت کے حکم پر کوڑے مارے گئے۔ طاہر نجمی رضاکارانہ طور پر گرفتاری دینے والے دستہ میں شامل تھے مگر ان کا نمبر آنے سے پہلے حکومت نے روزنامہ مساوات پر سے پابندی ختم کردی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے روزنامہ مساوات کراچی پر پابندی عائد کی۔
حکومت کی ایماء پر صحافیوں کا ایک گروہ پی ایف یو جے سے علیحدہ ہوا اور متوازی تنظیم قائم کر لی۔ اب سرکاری طور پر منہاج برنا ، نثار عثمانی اور دیگر رہنماؤں کے خلاف مذموم پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا۔پی ایف یو جے نے کراچی سے تیسری دفعہ تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ طاہر نجمی رضاکارانہ گرفتاری دینے والوں میں صف اول پر تھے۔طاہر نجمی نے ریگل چوک پر گرفتاری دی، انھوں نواب شاہ جیل منتقل کردیا گیا‘وہ تنہا چار ماہ تک نواب شاہ جیل میں رہے۔ انھوں نے جیل میں منہاج برنا سے یکجہتی کے لیے بھوک ہڑتال بھی کی۔ حکومت نے پی ایف یو جے کے مطالبات مان لیے ، یوں طاہر نجمی سب سے آخر میں رہا ہوئے۔ طاہر نجمی ترقی پسند نظریات سے متاثر ہوئے۔وہ ایف سی ایریا کے سرکاری کوارٹر میں تنہا رہا کرتے تھے۔
بائیں بازو کے کئی رہنما مہینوں ان کے گھر میں روپوش رہے۔ کمیونسٹ پارٹی نے اپنی سرگرمیاں بڑھائیں۔ صحافیوں میں بھی ایک خفیہ سیل قائم ہوا۔ طاہر نجمی، فرید اﷲ حسنی، خورشید تنویر، ظفر عباس اور راقم الحروف برسوں اس سیل کے تحت اسٹڈی سرکل کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے۔
طاہر نجمی کو کراچی یونین آف جرنلسٹس کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا ۔ طاہر نجمی کراچی پریس کلب کے سیکریٹری بھی منتخب ہوئے۔وہ روزنامہ امن میں نیوز ایڈیٹر رہے۔ اس زمانہ میں سنسر شپ کے دوران اور پھر پریس ایڈوائس کے دور میں بائیں بازو کی تنظیموں کی خبریں کسی نہ کسی طرح روزنامہ امن میں شایع ہوتی تھیں۔ جام ساقی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ خصوصی فوجی عدالت میں چلایا گیا۔ اس مقدمہ کی خبریں کبھی انگریزی اخبار میں اور کبھی غیر ملکی اخبارات میں شایع ہوتی تھیں، طاہر نجمی ان اخبارات کی خبریں ترجمہ اپنے اخبار میں شایع کرتے تھے۔ جب طاہر نجمی روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہوئے تو راقم الحروف سمیت کئی بائیں بازو کے لکھاریوں کویہاں کالم لکھنے کا موقع ملا۔
طاہر نجمی کے خیالات میں کچھ تبدیلیاں آگئی تھیں ، وہ صحافیوں کی سرگرمیوں سے دور ہوگئے تھے مگر انھوں نے کبھی ان خبروں کی اشاعت سے نہیں روکا جن خبروں میں موجودہ مواد سے وہ اتفاق نہیں کرتے تھے۔ طاہر نجمی منہاج برنا کی ٹیم کے آخری سپاہی تھے۔وہ اپنے پیچھے رواداری اور خبر کی حرمت کی روایت چھوڑ گئے۔ طاہر نجمی آپ بہت جلدی چلے گئے، میں اور ظفر عباس جب بھی کراچی پریس کلب میں لنچ کے لیے ملیں گے تو آپ کو ضرور یاد کیا کریں گے۔ (بشکریہ ایکسپریس)