تحریر: یونس ہمدم
تیرہ ستمبر لیجنڈ اداکار لہری کی برسی بڑی خاموشی سے گزر گئی، کاش کسی ٹی وی چینل سے اس نامور مزاحیہ اداکار کے لیے پندرہ بیس منٹ کا پروگرام ہی پیش کردیا جاتا۔ جب کہ بے فیض سیاست دانوں، نام و نہاد جمہوریت کے پروانوں اور موج و مستی میں بہنے والے دیوانوں کے دن رات ٹی وی چینلز پر تذکرے اس تسلسل سے ہوتے ہیں جنھیں سن کر اور دیکھ کر آنکھوں کی بینائی متاثر ہونے کے اندیشے لاحق ہوجاتے ہیں، مگر ہمارے ٹی وی چینلز شتر بے مہار کا انداز اختیار کیے رہتے ہیں۔ اب میں آتا ہوں اداکار لہری کی طرف جس نے اپنی منفرد اداکاری اور مکالموں کی بے ساختہ ادائیگی سے لاکھوں فلم بینوں کے دلوں میں گھر بنایا ہوا تھا۔
لہری ہماری فلم انڈسٹری کا ایک انمول رتن اداکار تھا، جس طرح چارلی چپلن دنیا میں اپنی طرز کا ایک ہی اداکار آیا تھا اسی طرح پاکستان کی فلمی دنیا میں اب شاید ہی کوئی اداکار لہری کے انداز میں نمودار ہوسکے۔ میں میٹرک کرکے نیا نیا کالج میں داخل ہوا تھا اور میں نے پہلی بار اداکار لہری کو ایک فنکشن میں سنا تھا۔ اور اس فنکشن میں لوگ لہری کے جملوں اور فقروں پر پیٹ پکڑ پکڑ کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔ لہری جملہ ادا کرتے سنجیدہ ہوجاتے تھے اور سننے والے ہنسی کی لہروں میں بہتے رہتے تھے۔
اس انداز کا فنکار اسٹیج کی تاریخ میں بھی پہلی بار آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اداکار لہری کے فنی سفر کی طرف بڑھوں یہ بتاتا چلوں کہ اداکار لہری کا گھریلو نام سفیر اﷲ صدیقی تھا، یہ 2 جنوری 1929 میں ہندوستان کے شہر کانپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم کانپور کے ہائی اسکول میں حاصل کی، پھر جب ہندوستان کا بٹوارا ہوگیا تو یہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ اسلامیہ کالج کراچی سے انٹر تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھر کے حالات بہتر کرنے کی غرض سے ملازمت اختیار کرلی۔ طبیعت میں شگفتگی اور مزاح بہت تھا۔
خاموش فلموں کے زمانے کے نامور اداکار چارلی چپلن کی فلمیں بہت دیکھتے تھے۔ جب کراچی کے فنکشنوں میں اداکار لہری کی چھاپ گہری ہوتی چلی گئی تو کراچی کا ہر بڑا فنکشن لہری کے بغیر بے معنی اور بے رنگ ہوا کرتا تھا، لہری ہر فنکشن میں اپنے برجستہ جملوں سے مزاح کی ایک کہکشاں سجا دیتے تھے اور لوگوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہوجایا کرتا تھا۔ معین اختر اسٹیج پر اداکار لہری ہی سے متاثر ہوکر آیا اور پھر بعد کے آنے والے کراچی کے تمام مزاحیہ فنکار نرالا، فرید خان، عمر شریف سب ہی کے دادا استاد اداکار لہری ہی کو کہتے تھے۔ اس زمانے میں کراچی میں بہت کم فلمیں بنا کرتی تھیں۔
یہ 1956 کی بات ہے، فلم ایکس چینج کے نام سے کراچی میں ایک مشہور تقسیم کار اور فلمساز ادارہ ہوتا تھا جس کے مالک شیخ لطیف تھے، انھوں نے ’’انوکھی‘‘ کے نام سے ایک فلم شروع کی جس کے ہدایت کار اس دور کے اداکار شاہ نواز تھے، اس دوران انڈیا کی مشہور فلم ’’ٹیکسی ڈرائیور‘‘ کی ہیروئن شیلا رمانی کراچی میں اپنے رشتے داروں سے ملنے آئی تھی۔ فلم ساز شیخ لطیف نے شیلا رمانی کو اپنی فلم ’’انوکھی‘‘ میں ہیروئن لے لیا، شیلا رمانی اور دیو آنند کی فلم ’’ٹیکسی ڈرائیور‘‘ ہندوستان میں بڑی ہٹ ہوئی تھی، اور ایک گانا تو بہت ہی ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے:
اے میری زندگی آج رات جھوم لے، آسماں کو چوم لے
شیلا رمانی کے ساتھ فلم ’’انوکھی‘‘ میں ایک واجبی سے اداکار شاد کو ہیرو لیا تھا اور مزاحیہ اداکار لہری کی بھی یہ پہلی فلم تھی، جس میں لہری کی شاندار اداکاری کو بڑا پسند کیا گیا تھا اور میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ گلوکار احمد رشدی نے بھی فلم ’’انوکھی‘‘ سے اپنی فلمی گلوکاری کا آغاز جس پہلے گیت سے کیا تھا اس کے بول تھے:
ماری لیلیٰ نے ایسی کٹار
فلم ’’انوکھی‘‘ 27 جنوری 1956 کو کراچی کے سینما رٹز میں ریلیز کی گئی تھی اور اس فلم نے اچھا خاصا بزنس کیا تھا۔ اداکار لہری نے پھر کراچی فلم انڈسٹری سے اپنی اداکاری کے سفر کا آغاز کیا۔ ابتدا میں جن فلموں میں کام کیا ان میں قابل ذکر فلمیں تھیں ’انسان بدلتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے، رات کے راہی، کون کسی کا، مانگ میری بھردو‘ وغیرہ۔ لہری کی شہرت لاہور کی فلم انڈسٹری تک پہنچ چکی تھی۔ ایک بار کراچی میں اداکار الیاس کاشمیری کی لہری سے ملاقات ہوئی، انھوں نے لہری کو لاہور بلوایا، اور پھر لاہور میں لہری نے جس پہلی فلم میں کام کیا اس فلم کا نام تھا ’’عشق پر زور نہیں‘‘۔ لاہور میں لہری کی ابتدا بھی بڑے اچھے انداز سے ہوئی تھی، پہلی فلم کے بعد ہی لہری کو کئی فلم سازوں نے سائن کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ دور دلجیت مرزا اور ظریف کی فلموں کا دور تھا ۔
فلم بین ان کی فلمیں بہت پسند کرتے تھے مگر جب لہری کا منفرد انداز فلموں میں نظر آیا تو پھر لاہور کی فلم انڈسٹری میں اداکار لہری کی بھی دھوم مچنے لگی تھی۔ لہری کو محمد علی، ندیم، وحید مراد اور شاہد بلکہ ہر ہیرو کے ساتھ کاسٹ کیا جاتا تھا اور لہری کو اپنی فطری اداکاری اور برجستہ جملوں کی ادائیگی کے ساتھ ہر فلم میں بڑا پسند کیا جاتا تھا۔ لہری کو کردار سمجھا دیا جاتا تھا اور پھر یہ اپنے کردار کو اپنے مخصوص انداز سے ادا کرتے تھے اور ساری فلم میں چھائے رہتے تھے۔
لہری نے لاہور کے ہر بڑے فلم ساز اور ہدایت کار کی فلم میں کام کرکے اپنے آپ کو منوایا تھا۔ انھوں نے بے شمار فلموں میں کام کیا اور بعض فلموں میں تو ان کے کردار بڑے لاجواب تھے، جن میں خاص طور پر انجمن، عندلیب، آگ، کنیز، دل میرا دھڑکن تیری، انہونی، جانے انجانے، ہم سے نہ ٹکرانا، منزل ہے کہاں تیری، آخری دو فلمیں ان کی تھیں ’’بابو‘‘ اور ’’دھنک‘‘۔ اداکار لہری کو ایک اعزاز یہ بھی جاتا ہے کہ انھوں نے تقریباً بارہ نگار ایوارڈز حاصل کیے، ایک لائف اچیومنٹ ایوارڈ اور حکومت کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈز سے بھی نوازا گیا تھا۔
جب لاہور میں اردو فلموں پر زوال آیا تھا تو اداکار لہری کی مصروفیت میں بھی کمی آگئی تھی۔ اسی دوران اداکار لہری پر فالج کا حملہ ہوا، پھر وہ کراچی شفٹ ہوگئے اور فلموں سے تعلق بھی ختم ہوگیا تھا۔ وہ شوگر کے مریض بھی ہوگئے تھے۔
لہری صاحب کو میں پچیس تیس سال سے دیکھتا رہا ہوں۔ وہ انتہائی نرم دل، شگفتہ مزاج اور انتہائی مذہبی آدمی تھے۔ وہ بیماری کے دنوں میں بھی صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور ان کی شخصیت میں مجھے کسی درویش کی جھلک نظر آتی تھی۔ انتہائی بیماری اور کسمپرسی کی حالت میں بھی وہ اپنے اللہ کے ساتھ راضی بہ رضا رہتے تھے۔ مجھے امریکا میں ہی ان کے انتقال کی خبر ملی تھی۔ بڑا دکھ ہوا تھا۔ وہ بہت ہی مہربان انسان تھے۔ اﷲ ان کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند کرے، آمین۔۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔