تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
موسمیاتی اور سیاسی تبدیلیوں کی طرح اُن دنوں بھی دنیا میں بہت سے سیاسی تبدیلیاں ہورہی تھیں البتہ موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار پچھلے دوعشروں کی طرح تیز نہیں تھی۔ اپریل کا مہینے کی ابتدا ءمیں راولپنڈی قدرے خنک تھا لیکن سیاسی حدت اور خاص طور پر ملک کے مقتدر اداروں میں درجہ حرارت بہت اوپر تھا،لاہور کا موسم بھی ابھی گرم نہیں تھا لیکن راولپنڈی کے ہائی ٹمپریچر کی تپش سیاسی چہروں پر واضح تھی ۔ سردیاں ختم ہونے کے بعد گرمیوں کی طرف موسم کا سفر شروع ہوچکا تھا ۔ جی ٹی روڈ راولپنڈی شہر کو مشرق اور مغرب میں تقسیم کرتے گزرتے ہوئے اپنے دونوں اطراف دو اہم اداروں کو بھی مشرق اور مغرب میں تقسیم کرچکی تھی،یہ تقسیم اطراف کے اعتبار سے مشرق اور مغرب میں تقسیم تھی لیکن کچھ عرصے سے تقسیم لب دکھائی نہیں دے رہی تھی ، مشرق پر بھی مغرب ہی دکھائی دے رہا تھا لگتا تھا سورج ایک ہی مقام سے طلوع اور غروب ہورہا ہے ، اور بہت جلدمشرق اور مغرب کے جنوب میں سورج غروب ہونے والا ہے ۔ یہ4 اپریل کی خنک صبح تھی جب مشرق ومغرب کے بیچ میں طلوع ہوا سورج تارا مسیح نے ایک جھٹکے سے غروب کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
یہ دن تھے جب صرف پرنٹ میڈیا تھا ، سرکاری نشریاتی ادارے ریڈیو اور ٹیلیویژن کی طرح پرنٹ میڈیا بھی سرکار کے کنٹرول میں تھا سخت سنسر شپ تھی ، تب صحافی ابھی اشرافیہ نہیں بنے تھے ، کچھ اس شاہراہ کو تک رہے تھے ، بعض لفٹ لیکر اس پر سفر کررہے تھے، بس چند ایک ایسے تھے جن کی سواری یہاںسے گذرتی تھی ، وہ سواری بھی سرکاری تھی، اخبارات سنسر کے باوجود اپنا پیغام قاری تک کسی نہ کسی انداز چھوڑ دیتے تھے، باوردی افسر اخبارات سنسر کرتے تھے جو مواد دل چاہتا اکھاڑ پھینکتے ،بعض اوقات متبادل مواد دستیاب نہ ہونے اور زیادہ تر قاری تک پیغام پہنچانے کیلئے اکھاڑے ہوئے مواد کی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی ، صبح کے وقت اطلاعات کاواحد ذریعہ رڈیا تھا، عالمی سروس عام میں مقبول تھی جن میں سے برطانوی نشریاتی ادارہ بہت مقبول تھا اور باخبر رہنے کیلئے لوگ صبح سمیت تمام نشریات سنا کرتے تھے ، تارا مسیح کے ہاتھوں غروب کیے جانے والے سورج کی خبر بھی سب سے پہلے بی بی سی نے نشر کی تھی۔ جس سے اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا تھا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ خبر بی بی سی کو فیڈ کی گئی تھی ، اس سے پہلے یہ خبر پاکستان کے اس قومی اشاعتی ادارے کو تین اپریل کی شام مکمل مواد ( سنسرڈ)کے ساتھ فراہم کردی گئی تھی، جس کا مالک ذولفقار علی بھٹو کی سیاست سے متفق نہیں تھا اور اس کے انتقال کے بعد بھی اس اخبار میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے پر محصورین بنگلہ دیش کی واپسی کی خاطر چندہ اکٹھا کرنے کیلئے اشتہار شائع ہورہے ہیں ، اکٹھا کیا جانے والا فنڈز کا استعمال کہاں کیا ہوا ؟یہ کبھی کسی نے جانا ہی نہیں ۔ اس اخبار کا مالک بھٹو کو سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار ٹھہراتا تھا ۔ اس اخبار میں تین اپریل کی شفٹ میں جس میں چار اپریل کا اخبار تیار ہورہا تھا ، بھٹو کی پھانسی کی خبر سرکاری موقف کے ساتھ پیش کرنے کے کیلئے خصوصی اشاعت ( ضمیمے) کیلئے سرکار کے فراہم کردہ مواد کی کتابت ، لے آﺅٹ مکمل کرلی گئی تھی ، ایک ہی ہاتھ کا لکھے مواد کی ایک ہی نِب کے ساتھ مکمل رازداری میں کتابت کی گئی تھی ، معمول کے اخبار کی پرنٹنگ کے بعد مکمل رازداری کے 7 خصوصی ضمیمے کی پلیٹ لگوائی گئی اور صبح جیسے ہی بی بی سی نے بھٹو کی پھانسی کی خبر نشرکی اس کے کچھ ہی دیر کے بعد یہ تیار شدہ ضمیمہ عوام تک پہنچ چکا تھا ، اس روز کی خصوصی اشاعت کو سنسر نہیں کیا گیا تھا، اور سنسر شپ عائد ہونے کے بعد یہ پہلی غیر سنسرڈ اشاعت تھی۔ اخبار کی ہیڈ لائن ” بھٹو کو پھانسی دے دی گئی “، نیچے جلی حروف میں ذیلی میں ذیلی سرخی تھی ”ایک سیاسی مخالف کے باپ کو قتل کروانے کا انجام “ یہ سرخی اور ذیلی( ہیڈ لائن ) جنرل ضیاءالحق کا موقف تھا ، پھر اسے سنسر کرنے کی ضرورت کیا رہی ؟یہ الگ بات کے سرکاری تحویل میں نیشنل پریس ٹرسٹ( این پی ٹی) کے اخبارات بھی دیگر اخبارات کی طرح سنسر ہوتے تھے حالانکہ وہ حکومتِ وقت کے ترجمان تھے جن کے پاس وسائل نوائے وقت سے کہیں زائد تھے اور ضمیمہ شائع کرنا کوئی غیر معمولی کارنامہ نہ ہوتا لیکن اس کے باوجود اقتدار کے کوریڈورز میں ضمیمے کی اشاعت کیلئے انتخاب ایک سنجیدہ چہرے کا کیا گیا اور ان کوریڈورز کی پالیسیوں کی اسی’غیر جانبدار ‘ مجاہد کے ذریعے پروموٹ کیا گیاان کوریڈورز میں ہونے والی سیاست پر شاہراہِ فاطمہ جناح اور برڈ ووڈ روڈ پر مہر ثبت ہوتی رہی جس میں اسلامی جمہوری اتحاد کے منصوبے کی حتمی کیاآخری شکل بھی شامل ہے اور اس کے راوی خود منصوبہ ساز مرحوم حمید گل ہیں ۔یہ قصہ انہوں نے لاہور کے ڈیفنس میں ڈیڑھ عشرہ قبل اسلامی تحریک کی داعی ایک ایک بزرگ کشمیری کے گھر سری پائے کے ڈنر میں اپنی اہلیہ مرحومہ کی موجودگی میں سنایا تھا ، اور اخباری کارکنوں کے اس جملے” یہ بات نظامی صاحب کو پسند نہیں “ کی عملی صورت کی بھی تصدیق کی تھی اور اس میں یہ اضافہ بھی کیا تھا کہ نظامی صاحب اپنے موقف پر ڈٹ جاتے تھے تو ہم کچھ تبدیلی کرکے انہیں رضامند کرلیتے تھے ۔
مجید نظامی نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے اور این پی ٹی تڑوانے کیلئے اس وقت تک کوشاں رہے جب تک اس میں کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ واقفانِ حالیہ بھی بتاتے ہیں کہ بینظیربھٹو نے جب جلاوطنی ختم کرکے ملک میں سیاسی سرگرمیاں شروع کیں اور جنرل ضیاءالحق کے بغیر پہلے الیکشن میں سے قبل مجید نظامی سے ملاقات کی تو انہوں نے سب سے پہلے این پی ٹی تڑوانے کا وعدہ لیا، اور جب این پی ٹی تڑوا لیا تو اخباری صنعت کے” آگوانوں“ کے سامنے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر فاتحانہ انداز میں کہا لیں میں نے این پی ٹی تڑوا دیا ہے اب کرلیں ٹریڈ یونین اور ویج ایوارڈ لے کر دکھائیں ۔ انہوں نے این پی ٹی ٹوٹنے اواس کے اشاعتی ادارے ختم ہونے کے بعد حسبِ خواہش بہت ترقی کی ایمپائر کھڑی کیں ، بیرون ملک اثاثے بھی بنائے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کچھ بک گئے ہیں اور کچھ ابھی نہیں سکے ،وہ اس وقت منوں مٹی کے ساتھ اپنے اُس بھائی( حمید نظامی مرحوم) کے ساتھ شائد کسی عالم میں ہم کلام ہوتے ہوں اور کچھ سوالوں کا جواب بھی دیتے ہوں ۔
بھٹو کی پھانسی کی بڑی خبر کے علاوہ نوائے وقت کے کریڈٹ پر ایک اور خبر بھی ہے وہ بھٹو کی بیٹی کی حکومت کے ”قتل ‘ کی ہے جسے ضیاءالحق کے بعد بننے صدر بنائے جانے غلام اسحاق خان نے دس اگست سنہ انیس سو نوے میں قتل کیا تھا ، یہ خبر دس اگست ہی کی معمول کی اشاعت میں لیڈ سٹوری کے طور پر شائع ہوئی تھی اس خبر کے ساتھ مجید نظامی کے بھتیجے اور اُس وقت تک نیشن اخبار کے ایڈیٹر عارف نظامی کا نام شائع کیا گیا تھا جو بینظیر بھٹو سے دوستی تک کے دعویدار رہے ہیں لیکن خبر چھاپنے سے پہلے اپنی دوست کو اس حوالے سے نہ مطلع کرتے ہیں اور نہ ہی ممکنہ صورتحال پر ان کا موقف ، ردِ عمل شائع کرتے ہیں ، خبر بھی” ممکنہ “ نہیں حتمی ہو؟ حتمی اس لئے تھی منصوبہ ساز کون سے پرائے تھے ۔ عارف نظامی کی باقی مقبول ہونے والی خبر کا تعلق عمران خان کی ازدواجی زندگی سے ہے یہ خبر بھی گھر والی بات اس لئے تھی کہ عمران خان اور جہانگیر ترین ایک تصویر کے دورُخ سمجھے جاتے تھے، جہانگیر ترین اور عارف نظامی کا باہمی تعلق بھی ویسا ہی تھا جیسا خاان اور ترین کا۔
این پی ٹی تڑو کر سینہ پھیانے والے مجید نظامی نے منوں مٹی تلے جانے سے پہلے سکندرِ اعظم کے دونوں خالی ہاتھ نہیں دیکھے لیکن گئے خالی ہاتھ ، اب بھی ان کی حالت ویسی ہے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے والا کوئی نہیں ، جس ادارے کو ی امپائر بنانے کیلئے مجید نظامی محصورین بنگلا دیش ، کشمیر ریلیف فنڈ، افغان جہاد اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق ( پوچھ کر) کہنے کو سب سے بڑا جہاد قراردینے کا نعرہ لگاتے رہے ، وہ مستقبل میں مشرقی پاکستان دکھائی دیتی ہے ، اس امپائر کے ابتدائی انویسٹر ابھی اپنے ساتھ وعدہ خلافی اور اپنی توہین بھولے نہیں۔۔۔۔ان کے بھتیجے ( جن سے مال و زر نے تعلق ختم کروادیا تھا)عارف نظامی کے پیچھے لوگ موجود ہیں ،وہ حمید نظامی (والد) کیلئے جس طرح ہاتھ اٹھاتے تھے ویسی ہی وہ کچھ لوگ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں ماسوائے صحافتی ورثا کے ،ان کے خاندان میں اب پیشہ صحافت میں کوئی نہیں رہا ، پہلے حمید نظامی گئے ، پھر مجید نظامی کی باری آئی ، اب عارف نظامی راہِ عدم ہوئے اوردرِ نظامی صحافت کو تالا لگاگئے ہیں ۔
صحافت ویسے ہی وجود ختم کرچکی ہے اور اخبارات مراسلے بن چکے ہیں، نشریارتی اداروں کی صورتحال الگ ہے جہاں غیر صحافی زیادہ راجکمار ہیں ، بڑی خبریں اب حسبِ ضرورت چھوٹی چھوٹی کرکے ٹکروں میں فیڈ کردی جاتی ہیں ساتھ ہی صحافت کی آزادی کا نعرہ لگایا جاتا ہے جیسے روٹیکپڑا اور مکان ، قرض اتارو، ملک سنوارو، سب کیلئے انصاف ، نظام تبدیل، شرعیت کا نفاذ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔یہسب نعرے اپنیجگہ وجود رکھتے ہیں نظریہہی نہ عمل نہ صحافت نہ سیاست ، نہ ہی شریعت، صرف ضرورت ، ،، ضرورت کی سیاست ،صحافت ، سفارت اور معیشت جس میں عام آدمی کا حصہ ٹیکس دینے اور چکی کے پاٹوں میں پسنے کے سوا کچھ نہیں ،۔۔۔ دنیا موسمیاتی تندیلیوں میں تیزی سے گھر رہی ہے، درجہ حرارت بڑھ رہا ، آگ جسم و جاں جلانے کو ہے ۔۔۔ ’ ٹھنڈی مٹھی ‘ صحافت دفن ہو ،چکی ،تپش سے جلتی ہوئی صحافت کی آزادی زندہ باد۔۔۔(محمد نواز طاہر)۔۔