تحریر: ایم نعیم کھوکھر
اب جب عمر عزیز 60 کی سرحدوں کو چھونے کے قریب ہے، مزدور یونین کے ایک حصے صحافیوں کی انجمنوں (پی ایف یو جے، کے یو جے وغیرہ) کا فعال حصہ رہنے کے طویل سفر نے مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ایک تنظیم کے حصے بخرے ہوتے ہم سب ہی دیکھتے رہے۔ ضیاء دور سے شروع کردہ ٹکڑوں میں تقسیم کا یہ سفر اب مزید تیز ہوچکا۔ اللّہ غریقِ رحمت کرے برنا اور عثمانی صاحبان کو کہ جب تک حیات رہے، تنظیم میں مزید نقب زنی نہ ہوسکی. پی ایف یو جے فعال اور کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی وہ تنظیم رہی، جس سے حکمران اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی خوف کھاتے تھے، اخباری مالکان کا تو معاملہ ہی الگ تھا کہ انہیں بھی مزدور دشمن اقدامات کا حوصلہ نہ ہوپاتا تھا اور اگر کرتے بھی تھے تو پھر انہیں واپس بھی لینا پڑتا تھا۔
احتجاج سڑکوں پر ہوتا تھا، لاٹھی چارج اور شیلنگ کا سامنا عام بات تھی، حوالات اور جیلیں بھی ٹھکانہ رہا۔
پھر وقت بدلتا گیا۔ حقیقی لیڈروں کی جگہ بناسپتی لیڈرز ہماری اپنی کوتاہیوں سے اوپر آئے۔ گروپ بندیاں ہوئیں، پی ایف یو جے کے بطن سے مزید گروپ وجود میں آئے۔ صورتحال یہ ہوچکی کہ صرف ایک پی ایف یو جے سے برنا اور دستور کے بعد اب برنا کے مزید 4 گروپ مختلف لیڈروں کے نام سے موصوم اور برنا کے نام کو دھبہ لگا رہے ہیں اور ہم جیسے اس تباہی کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ لیڈرشپ کب کی ختم ہوچکی، اب مختلف گروپ مختلف میڈیا مالکان کی نمائندگی کر رہے ہیں، صحافیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں، مالکان جب چاہتے ہیں تھوک کے حساب سے انہیں بے روزگار کر کے ہاتھ جھٹک کر اگلے اقدام کیلئے کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ تنخواہوں میں اضافے کی جگہ کمی بھی دھڑلے سے ہوجاتی ہے، وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی اب میڈیا میں رائج ہی نہیں رہا۔ ریٹائرمنٹ پر اپنی ہی رقم اور واجبات کیلئے برسوں کے دھکے صحافیوں کا مقدر بن چکے۔
بنیادی طور پر ہم اب سہل پسند ہوچکے، ہم ٹریڈ یونینز کے بنیادی کاموں کو فراموش کر چکے، ہمارے لیڈران کی توجہ آسائشوں کے حصول پر ہے، ٹریڈ یونینز سے وابستگی ساتھیوں کے مفادات کی نگہبانی سے زیادہ میڈیا مالکان کے مفادات کی نگہبانی نے لے لی۔ اب لیڈران کی زیادہ دلچسپی پریس کلبس کی سیاست رہہ گئی ہے، ٹریڈ یونین سیاست اب ثانوی حیثیت اختیار کرچکی۔ ٹریڈ یونینز اب بلا مقابلہ اپنی تنظیم سازی کرلیتی ہیں یا پھر انتخابات میں اس وقت اترتی ہیں جب اپنے مطلب کا سیٹ اپ مکمل کرلیں، چاہے اس میں کتنی دیر ہی کیوں نہ لگے، آپ ان مالکان کے ٹائوٹس تنظیموں کے یونٹس ہی دیکھ لیں، زیادہ تر میں انتخابات کی روایت ہی ختم ہوچکی، جعلی ممبرشپس پر کوئی کنٹرول اور چیک اینڈ بیلنس نہیں، چھوٹے یونٹ کے بی ڈی ایم ارکان بڑے اور حقیقی صحافیوں پر مشتمل یونٹس سے بڑے ملیں گے۔ یہ سب اقتدار پر کنٹرول کے وہ حربے ہیں، جو مالکان نے ان تنظیموں کو بے اثر کرنے کیلئے آہستہ آہستہ تنظیموں میں سرایت کئے اور اب یہ عفریت بن چکے۔
میں پریس کلب کی سیاست یونینز کے مقابلے میں کمتر درجے پر رکھتا ہوں۔ یہ کلبس ہم صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے درمیان کچھ سکون و اطمینان اور تفریح کے مواقع دینے کیلئے قائم کئے گئے نہ کہ اس لئے کہ تنظیمیں اس کی سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا ہی بنالیں۔ کراچی میں تو ویسے ہی راوی پانچوں انگلیاں گھی میں لکھتا ہے، حکمران گروپ اتنے ووٹرز بنا چکا کہ جو امیدوار اس گروپ سے کھڑا کیا جاتا ہے، پہلے ہی جیت کی مبارکباد قبول کرنے لگتا ہے۔ وجہ وہ “عقیدت مند” ووٹرز ہیں جو کارکردگی کی بجائے نظم اور گروپ کے فیصلوں پر آنکھ اور دماغ بند کر کے حکم بجا لاتے ہیں۔ ہمارے اور ہم جیسے دیگر صحافیوں کیلئے تو۔۔ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے حالات۔۔(ایم نعیم کھوکھر)۔۔
(زیرنظر تحریر سینئر صحافی ایم نعیم کھوکھر کے سوشل اکاؤنٹ سے لی گئی ہے۔۔ جس کا مقصد نوجوان صحافیوں کو آگہی فراہم کرنا ہے کہ کہ صحافت میں ٹریڈ یونینز کیوں دم توڑ رہی ہے۔۔ علی عمران جونیئر)۔۔