baray TV channel ke maalik ki khushnoodi

بڑے ٹی وی چینل کے مالک کی خوشنودی۔۔

تحریر: ملک محمد سلمان۔۔

گذشتہ دنوں ایک بڑے ٹی وی چینل کے مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے آرگنائزد کرائم یونٹ کے بانی ڈی آئی جی لیاقت ملک کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس واقع سے نہ صرف پنجاب پولیس بلکہ پاکستان بھر میں پولیس ملازمین نے خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع کردیا ہے اور پولیس ملازمین کا مورال تیزی سے ڈاؤن ہوا ہے۔

اپنے میڈیا ہاؤس سے بڑے ٹی وی چینل مالک کے سامنے بے بس نگراں وزیراعلی سے تو کوئی مثبت امید نہیں رکھی جاسکتی۔ انصاف کی واحد امید و مرکز عدلیہ سے گذارش ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ناصرف مذکورہ ہسپتال بلکہ تمام مہنگے ہسپتالوں کی تحقیقات کروائیں۔ پیسے کی ہوس میں اندھے ہوئے اس مافیا کو شائد خدا یاد نہیں۔ ہر روز بے شمار واقعات میں ڈاکٹرز کی لاپرواہی سے مریضوں کی اموات ہورہی ہیں۔اگر مریض کے لواحقین بحث و تکرار کریں یا احتجاج کرنے کی کوشش کریں تو انکو زدو کوب اور ہراساں کیا جاتا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے ممالک میں  %95 کیسز میں نارمل ڈلیوری کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں پیسے لوٹنے کیلئے حاملہ خواتین کو بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے مذید ازیں آئی سی یو میں رکھنے کیلئے قبل ازوقت ڈلیوری کردی جاتی ہے یوں چند ہزار میں ہونے والی ڈلیوری بیس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔  اس سارے پروسیجر میں خواتین کو جس اذیت اور عذاب سے گزرنا پڑتا ہے اس کا کوئی مداوا نہیں۔

بدقسمتی سے مافیاز نے اپنے اپنے میڈیا ہاؤسز اور ٹی وی چینلز بنارکھے ہیں۔ایسے میں کوئی بھی ان کے بزنس ایمپائر کے خلاف ذرا سی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی آواز اس طرح بند کی جاتی ہے کہ کوئی دوسرا اونچی بولنے سے قبل سو دفعہ نہیں ہزار بار سوچے۔ سیٹھ کے ذاتی میڈیا ملازم کیمرہ اور مائک اٹھا کر فوری پہنچ جاتے ہیں اور اس معاملے کا رخ تبدیل کرنے کیلئے زبردستی مائک اگلے کے منہ میں گھسا کر اس طرح کے سوالات کریں گے کہ اگلا بندہ زچ ہوکر رہ جائے اور طیش میں کوئی غلطی کرے اور اس کو آزادی اظہار اور میڈیا پر حملہ بنا کر پیش کردیا جائے۔ مذکورہ واقع میں بھی یہی ہوا۔جس کا باپ بستر مرگ پہ ہو وہ بدمعاشی نہیں کرتا۔ ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم یونٹ کیپٹن لیاقت علی ملک کے والد 5 دسمبر سے ڈاکٹر ہسپتال لاہور میں زیر علاج ہیں اور گذشتہ کئی روز سے  وینٹیلیٹر پر ہیں۔ مبینہ طور پر روزانہ دو سے تین لاکھ کا ایڈوانس بل تھما دیا جاتا ہے۔ لاکھوں روپے روزانہ بٹورنے کے باوجود مریض کی حالت جوں کی توں، بہتری ہونا تو درکنار ڈاکٹرز آج تک سہی سے یہ نہیں بتا سکے کہ مریض کا ایشو کیا ہے اور وہ کیا علاج کررہے ہیں۔ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر چیمہ سے بات کی تو کہتے ہیں ہم اوورکمیٹڈ ہیں اسی لیے ہم مریض کو چیک نہیں کر پا رہے۔ ٹیسٹ کروانے پر روٹین میں کسی بھی باہر کی لیبارٹری سے  2 گھنٹے میں ملنے والی رپورٹ مذکورہ ہسپتال میں چھے چھے دن نہیں دی جاتی۔ ایک ہی ٹیسٹ کو دوسرے دن پھر رپیٹ کرنے کو کہا جاتا ہے جبکہ پہلے کی رپورٹ ابھی تک نہیں ملتی۔ ڈی آئی جی لیاقت ملک کے والد کی پیشاب والی تھیلی میں بلڈ آنا شروع ہو گیا،جب بلڈ کا بتایا تو کہتے سامان منگوالیا ہے ابھی چینج کردیتے ہیں مگر ICU میں ہوتے ہوئے بھی  24 گھنٹے گزرنے کے باوجود کسی نے پیشاب کا بیگ تک تبدیل کرنے کی زحمت نہیں کی اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر چیک کرنے آیا۔جس کا علیل باپ بائیس دن سے وینٹیلیٹر پہ ہو اور وہ ہسپتال کو لاکھو ں روپے ایڈوانس دے رہا ہو وہ ڈاکٹر سے علاج کے بارے میں سختی سے پوچھ بھی نہیں سکتا؟  زبان زدعام ہے کہ مذکورہ  ہاسپٹل کی انتظامیہ ایک مردہ بچی کے لواحقین سے مسلسل ICU میں رکھ کر پیسے بٹورتے رہے اور واقعہ ایکسپوز ہونے پر اس مافیا کا کوئی کچھ نہ بگاڑ نہ بگاڑ سکا (ایسے واقعات سے فوری نمٹنے کیلئے سیٹھ کے چینلز کے صحافی ہر وقت ہسپتال کے قریب ہی الرٹ رہتے ہیں)

ایسے حالات میں تو ایک مزدور بھی انسانی جانوں سے کھیلنے والے سوداگروں کا گریبان پکڑنے کو چلا جاتا ہے۔ مبینہ طور پر ڈی آئی جی لیاقت ملک نے سخت پریشانی میں تھوڑا تلخ لہجے میں کہا کہ آپ منہ مانگے پیسے لے رہے ہیں اور علاج ہوتا نظر نہیں آرہا۔ لاہور کے طاقتور  پراپرٹی ٹائیکون اور بڑے ٹی وی چینل مالک کی فل سپورٹ اور بیک کی وجہ سے ڈاکٹرز نے علاج کے بارے بریف کرنے کی بجائے الٹا ڈی آئی جی کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا۔ ڈاکٹرز اور ہسپتال انتظامیہ کے نرغے میں اپنے ڈی آئی جی کو یرغمال دیکھ کر لیاقت ملک کے ساتھ آئے سٹاف آفیسر نے ڈی آئی جی کو اعتماد میں لیے بغیر ڈی ایس پی سی آئی اے کو فون کردیا کہ فوری پہنچ جائیں ڈاکٹرز،ہسپتال عملہ اور کچھ صحافی صاحب کے ساتھ بدتمیزی کررہے ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے چکر میں ڈی ایس پی اور سی آئی اے اہلکاروں نے یرغمال ڈی آئی جی کو بچانے اور وہاں سے محفوظ نکالنے کیلئے رپورٹرز کو دھکا دے دیا۔ بس رپورٹر کو دھکا لگنا تھا کہ ساری کہانی بدل گئی اور مظلوم کو اگلے ہی لمحے ظالم بنا کر پیش کردیا گیا۔ ہسپتال والے سیٹھ کے ٹی وی پر میراتھن ٹرانسمشن شروع ہوگئی کہ ڈی آئی جی لیاقت ملک کا پولیس نفری کے ہمراہ ہسپتال پر دھاوا۔صحافیوں پر تشدد،آزادی صحافت پر حملہ۔

سیٹھ کے رپورٹرز کے بعد اگلا کام سیٹھ کے تنخوادار اینکرز نے شروع کردیا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہسپتال پر حملہ ہو۔

سیٹھ کے اینکرز پورے زور سے گلا پھاڑ پھاڑ کر بتارہے تھے کہ مبینہ طور پر ہسپتال میں کثیر تعداد میں آئی سی یو مریض ہیں،مریضوں کو انتہائی پرسکون ماحول چاہیے ہوتا ہے اور پولیس کے آنے سے مریض اور لواحقین پریشان ہیں۔مگرمچھ کے آنسو بہاتے اور گلاپھاڑنے والے اینکرز کو پتا ہونا چاہئے کہ لیاقت ملک بھی مریض کے لواحقین میں تھے۔ سیٹھ کے تنخواہ دار میڈیا ملازمین ”تیرا کھانواں تیرے گیت گانواں“ والوں کو شاید یہ نہیں پتا کہ آئی سی یو میں  داخل ویلنٹیلیٹر مریضوں کیلئے سب سے ضروری ڈاکٹر اور دوائی ہوتی ہے۔لیکن مذکورہ ہسپتال میں لواحقین سدائیں لگاتے رہ جاتے ہیں اور ڈاکٹر نہیں آتا۔میڈیا کے دوستو ں سے گزارش ہے کہ اللہ نہ کرے کہ ہمارے والدین میں سے کوئی اس کرب سے گزررہا ہو اور کسی سیٹھ کے ملازمین الٹا ہمیں ہی قصوروار ٹھہرا رہے ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ لیاقت ملک کے والد محترم کو صحت تندرستی والی زندگی عطا فرمائے آمین

آئی جی پنجاب  عثمان انور سے گزارش ہے کہ آپکی ہزاروں ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا ویڈیو سے پولیس کا اتنا مورال بلند نہیں ہوگا جتنا ڈی آئی جی لیاقت ملک کو بحال کرنے سے ہوگا۔آپ پولیس کمانڈر ہیں،ہمت کریں اور لیاقت ملک کے کندھے پر ہاتھ رکھیں۔یہ وہی لیاقت ملک ہے جس نے پنجاب میں تیزی سے بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور جرائم کا خاتمہ کرنے میں دن رات ایک کیا۔لیاقت ملک کی شبانہ روز کاوشوں سے موسٹ وانٹڈ مجرموں کی گرفتاریاں ہورہی تھی اور پولیس پر حملے کرنے والے درندوں کو جہنم واصل کرکے شر پسند عناصر کو واضح پیغام دیاجارہا تھا۔ ملک دشمن اور مجرموں کے گرد گرا تنگ ہو رہا تھا اور اور پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو رہی تھی۔ دہشت گردوں کے مضبوط و مربوط نیٹ ورک کے خاتمے اور نو مئی کے ملزمان کی گرفتاریوں میں پیش پیش  ڈی ائی جی کیپٹن لیاقت ملک کے دشمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ آپ سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو ہر طرف لیاقت ملک کی سپورٹ میں ان گنت افراد پوسٹ کررہے ہیں وہیں پر کچھ افراد ان کو او ایس ڈی کرنے پر شادیانے بجا رہے ہیں،خوشیاں منانے والوں کی پروفائلز کا بغور جائزہ لیا تو ان افراد کا تعلق 9مئی کو آرمی تنصیبات پر حملے کرنے والے اور مذکورہ سیٹھ کے ملازمین سے تھا۔ چوروں، ڈاکوؤں، شر پسند اور ملک دشمن ناصر کو کھٹکنے والے لیاقت ملک کو تنہا کر دینا کہاں کی عقلمندی اور انصاف ہے۔(ملک محمد سلمان)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں