تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
مجھے یہ بات سمجھنے میں بڑا عرصہ لگا کہ ہر فلم میں وِلن کسی وزیر یا پولیس افسر کو جب رشوت دینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کے گھر نوٹوں سے بھرا بریف کیس کڑک کر کے کیوں کھول کر رکھ دیتا ہے کہ بابو ہمارا کام کر دو‘ یہ سب نوٹ آپ کے ہوئے۔ اس بریف کیس میں موجود نقدی میں ایسی کیا چمک ہوتی ہے کہ آنکھیں جھپک جاتی ہیں‘ چندھیا جاتی ہیں۔ انسان ڈگمگا جاتا ہے۔ ایماندار ترین شخص کا حوصلہ بھی جواب دے جاتا ہے۔ اگر آپ کسی کو ایک کروڑ کا چیک دیں یا اسے نقد دیں تو دونوں میں فرق دیکھ لیں۔ کوئی بندہ ایک کروڑ روپے کا چیک لے کر خود کو امیر نہیں سمجھے گا لیکن ایک کروڑ کیش اسے ارب پتی کی فیلنگ دے گا۔
جدید معاشروں میں جہاں ٹیکنالوجی بہت آگے بڑھ چکی ہے‘ آن لائن شاپنگ پر ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔آپ ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کریں تو بھی وہ ڈسکاؤنٹ دیں گے بلکہ بڑے بڑے انعامات دیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اگر آن لائن شاپنگ پر ایک لاکھ روپے کی خریداری کریں تو آپ کو محسوس نہیں ہوگا کہ آپ رقم خرچ کررہے ہیں لہٰذا آپ کھل کر شاپنگ کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو کسی دکان پر ایک لاکھ روپے بٹوے سے نکال کر گن کر سیلز مین کے ہاتھ پر رکھنا پڑیں تو آپ کو احساس ہوگا یار کچھ زیادہ پیسے خرچ کر دیے ہیں۔ ممکن ہے وہیں کھڑے کھڑے آپ چند آئٹمز واپس رکھ دیں کہ پھر کبھی سہی‘ لیکن یہ احساس آپ کو کارڈ پر ادائیگی پر نہیں ہوتا۔
یہی کچھ توشہ خانے کے کیس میں ہوا کہ سب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ جوں جوں پاکستانی ارب پتی وزرائے اعظم‘ وزیروں‘ مشیروں‘ سفیروں‘ سول و ملٹری بیوروکریسی اور دیگر کے سامنے قیمتی تحائف رکھے گئے تو وہ اس Temptation کا شکار ہوئے‘ جو فلموں میں بریف کیس میں نوٹ دکھا کر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔میں نے بڑا عرصہ توشہ خانہ کی رپورٹنگ کی ہے۔ ایک حکمران نظر نہ آیا جس کی آنکھیں ہیرے جواہرات دیکھ کر چندھیا نہ گئی ہوں۔کوئی ایک بھی نہ تھا جو اِن کروڑں روپوں کی مالیت کی اشیاکو نظر انداز کر پاتا۔ قیمتی چیزیں ایک طرف چھوڑیں یہاں تو ان بڑے لوگوں نے بنیا ن‘ جوتے‘ ٹائی‘ انڈرویئر‘ جرابیں‘ بیڈشیٹس‘ سکارف‘ کھجوریں‘ پائن ایپل‘ شہد تک نہ چھوڑا کہ مفت مل رہا تھا۔ان بڑے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی حرکتوں نے پاکستان کے لوگوں کو حیران کر دیا ہے کہ یہ جو ارب پتی لوگ ہیں‘ یہ کہہ کر اس ملک کے حکمران بنے تھے کہ وہ عام لوگوں کی زندگیاں بدل دیں گے‘ وہ تو اتنے چھوٹے نکلے ہیں کہ جو ہاتھ لگا سمیٹ کر لے گئے۔
توشہ خانے کی فہرست سامنے آنے کے بعد جس طرح کی لوٹ مار نظر آئی ہے اس سے آپ کو ہندوستان پر افغانستان‘سینٹرل ایشیا‘ ایران‘ عرب‘ یونان اور دیگر خطوں کے حملہ آوروں کی یاد آجاتی ہے۔ ان کے بارے تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ وہ ہندوستان سے سونا‘زیوارت‘ ہیرے جواہرات اور دیگر قیمتی اشیالوٹ کر لے جاتے تھے۔ نادر شاہ نے تو دلی میں شاہی خاندان کو جس طرح قتل کیا‘ مسلمانوں کا لہو بہایا اور جاتے وقت مال و دولت لے گیا وہ آپ کو حیران کر دے گا۔ نادر شاہ ہی کوہ نوہ ہیرا ساتھ لے گیا تھا جو بعد میں انگریز لے گئے۔ انگریزوں نے بھی یہاں کے شہزادوں اور بادشاہوں کے تحائف پر ہاتھ صاف کیا‘ تب ہندوستان پر حملوں کی وجہ اس کی خوشحالی تھی کیونکہ یہ سات دریائوں کی سرزمین تھی جہاں اناج کی کمی نہ تھی۔ یوں ہر سال کوئی نہ کوئی معاشی طور پر کمزور قوم اور جنگجو اس پر حملہ آور ہو کر اناج‘ سونا اور لوگوں کو غلام بنا کر لے جاتے تھے۔
وقت بدلنے کے ساتھ جب آج کے جدید دور میں اس طرح کی لوٹ مار کو غیرانسانی سمجھا جاتا ہے تو ہمارے پاکستانی حکمرانوں نے قانونی لوٹ مار شروع کر دی۔یہ توشہ خانہ کا قانون وزیراعظم اور اس کی کابینہ بناتی ہے اور خود چندہزاردے کر کروڑوں روپوں کے تحائف رکھ کر اسے قانون کا نام دے کر ہم سب کا منہ بند کرادیتی ہے۔قانون بھی خود بنایا اور فائدہ بھی اس سے خود ہی اٹھا رہے ہیں اور ہم لوگ بات کریں تو جواب ملتا ہے کہ بھائی یہ ملکی قانون ہے۔ وہ کیسا قانون ہے جو صرف وزیراعظم‘ وزیروں اور بیوروکریسی کو فائدہ دیتا ہے؟اگر آپ فہرست پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا ان حکمرانوں کو سب سے زیادہ تحفے تحائف عرب ممالک سے ملے ۔ ہمارے عرب بھائی پاکستانیوں کا مزاج جانتے ہیں کہ ان کے لیے کسی ملک کا حکمران بننا اتنا اہم نہیں ہے جتنا حکمران بن کر ہیرے جواہرات‘ رولیکس گھڑیاں‘ نیکلس‘ بریسلٹ اور انگوٹھیاں ہیں۔ جو بھی پاکستانی وزیراعظم بنتا ہے یا صدر وہ ضرور سعودی عرب جاتا ہے اور بار بار جاتا ہے کیونکہ وہاں ہر دفعہ بڑے بڑے مہنگے تحائف ملتے ہیں۔ وہاں سے ہیرے جواہرات‘ انگوٹھیاں اور گھڑیاں ملتی ہیں جن کی قیمت کروڑوں میں ہوتی ہے۔ میرا ذاتی خیال تھا جو غلط نکلا کہ شاید عمران خان کچھ نیا کریں گے۔وہ زرداری‘ گیلانی اورشریفوں کی طرح ہیرے جواہرات کی چمک کا شکار نہ ہوں گے۔ الٹا انہیں شرمندہ کریں گے کہ دیکھا تم لالچی نکلے‘ خان نہیں۔ وہ لالچی انسان نہیں ہے۔ اسے دنیاوی اشیا کی ضرورت نہیں۔اسے اس دنیا کے بجائے آخرت کی فکر ہے۔ اب جو کچھ خان صاحب سے برآمد ہورہا ہے وہ سن اور پڑھ کر آپ دکھی ہوجاتے ہیں۔ اگر عمران خان جیسا بندہ‘ جسے بقول کسے کسی چیز کی لالچ نہیں‘اللہ نے بہت کچھ دیا ہوا ہے‘ وہ بھی ہیرے جواہرات‘ گھڑیاں‘ انگوٹھیاں سمیٹ کر لے جاسکتا ہے تو باقی کہنے کو کیا رہ جاتا ہے۔
نواز شریف کو دیکھ لیں‘ کلثوم نواز کے تحائف دیکھ لیں۔ ہمیں نواز شریف بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ان کے والد ارب پتی تھے۔ یہ ارب پتی والد کے بیٹے کے کمالات ہیں کہ انہوں نے بھی جو کچھ ملا سمیٹ لیا۔ نواز شریف نے یہ تحائف تین دفعہ سمیٹے جب وہ وزیراعظم بنے۔ گیلانی صاحب نے بھی سمیٹا‘ علوی صاحب قیمتی تحائف چند ہزار دے کر گھر لے گئے‘ زرداری نے بھی بڑے ہاتھ مارے۔ شاہد خاقان عباسی نہ صرف وزیراعظم رہے بلکہ ایئرلائن کے مالک بھی‘ وہ بھی ہیرے جواہرات دیکھ کرقائم نہ رہ سکے اور اب ٹی وی کیمروں کے سامنے بڑے فخر سے فرما رہے ہیں کہ یہ تحائف انہیں ملے تھے‘اُن کی مرضی وہ جو چاہیں کریں۔ یہ بندہ ملک کا وزیراعظم رہا ہے۔پرویز مشرف نے سینکڑوں تحائف لیے اور گھر لے گئے۔ انہوں نے تو 2004ء کے بعد تحائف کابینہ ڈویژن کو رپورٹ کرنے ہی چھوڑ دیے تھے کہ کون اب دس فیصد ادا کرے۔ 2004ء سے 2008ء تک مشرف کو ملنے والے تحائف کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ مطلب سب تحائف سے بھرے بیگز سیدھے ان کی رہائش گاہ پہنچا دیے جاتے تھے۔ شوکت عزیز کے اثاثوں کی مالیت سات ارب بتائی گئی تھی۔اس ارب پتی بندے نے ایک تحفہ نہ چھوڑا۔ شوکت عزیز تو جرابیں اور بنیانیں تک اکٹھی کرتے رہے اور سونے ہیرے کے جواہرات اور گھڑیوں سے بھرے بیگز لندن لے گئے جہاں سب تحائف سجے ہوئے ہیں۔
لوگوں کو اندازہ تو تھا کہ پاکستانی ایلیٹ کرپشن کرتی ہے لیکن یہ اندازہ نہ تھا کرپشن کا لیول یہ ہوگا۔پاکستانی حکمرانوں کی یہ وحشت ناک ہوس دیکھ کر عمران خان کا ستمبر 2018ء میں کیا گیا ایک ٹویٹ یاد آتا ہے۔ خان نے بھارتی وزیراعظم مودی کے بارے طنزیہ کہا تھا‘ ساری عمر بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ دیکھے ہیں۔خان صاحب دراصل مودی کو چائے بیچنے والے کا طعنہ دے رہے تھے کہ چائے کے ڈھابے کا ”چھوٹا‘‘ ہندوستان کا وزیراعظم تو بن گیا لیکن عمر بھر وہ ”چھوٹا‘‘ ہی رہا۔یہی دکھ اب ہم پاکستانیوں کو ہورہا ہے۔ ہم لوگوں نے بھی پاکستان میں بڑے بڑے عہدوں پر چھوٹے چھوٹے لوگ آخر دیکھ لیے ہیں۔(بشکریہ دنیانیوز)