تحریر: ناصر بشیر۔۔
میں آپ کے دوست اور آج کے نام ور اداکار سہیل احمد کو تب سے جانتا ہوں جب ہم دونوں 90 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں روزنامہ “پاکستان” میں رفیق کار تھے۔آپ ان دنوں ایک نسبتا” نئے اداکار سہیل احمد کی خبریں بہت نمایاں انداز میں لگاتے تو مجھ سمیت آپ کے کئی رفقائے کار اسے دوست نوازی پر محمول کیا کرتے تھے لیکن آپ ہمیں کہتے کہ ایک بار اس کا کام تو دیکھو۔پھر اعتراض کرنا۔دوسرے معترضین کی طرح ایک دن مجھے “محفل” تھیٹر جا کر وہ ڈراما دیکھنا پڑا جس میں سہیل احمد اور امان اللہ ایک ساتھ کام کر رہے تھے۔اس ڈرامے میں سہیل احمد امان للہ کی ہر جگت کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہے تھے۔جب امان اللہ سہیل احمد کی ایک جگت کے جواب میں خاموش ہوگئے تو سہیل احمد نے احتراما” ان کے پاوں چھوئے۔اماں اللہ نے سہیل احمد کو گلے لگا لیا۔یہ منظر دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ سہیل احمد جلد ایک بڑے آدمی اور بڑے اداکار کی صورت میں فن کے منظرنامے پر جلوہ افروز ہو گا اور آج یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے۔سہیل صاحب ناصر بشیر نیوز سروس کے رکن بھی تھے۔یہ ایس۔ایم۔ایس سروس ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کی فوتیدگی کی اطلاع جاری کیا کرتی تھی۔سہیل صاحب کو جب بھی کسی بڑے آدمی کے انتقال کی خبر ملتی تو وہ جوابا” اناللہ واناالیہ راجعون ضرور لکھتے۔انھوں نے مجھے کبھی یہ نہیں کہا کہ میرا نام اس سروس سے نکال دو۔وہ چونکہ علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ادیبوں شاعروں اور فن کاروں سے تعلق رکھنا چاہتے تھے۔ان کے مقابلے میں اگر آفتاب اقبال کو دیکھا جائے تو یہ شخص تکبر کا مارا ہوا اور چھچھورا آدمی ہے۔یہ بھی میری نیوز سروس کا رکن رہا لیکن یہ ادیبوں شاعروں کی بیماری اور فوتیدگی پر ہنستا تھا۔اس نے ناصربشیرنیوزسروس کے بارے میں روزنامہ” جنگ” میں ایک تضحیک آمیز کالم لکھا۔اس سے میری پہلی ملاقات 1993 کے آس پاس ہوئی۔یہ اپنے ابا جی کے ساتھ اپنا بچگانہ کتابچہ “سیٹ بیلٹ” لے کر میرے پاس روزنامہ پاکستان کے دفتر میں آیا تھا۔اس کے ابا جی نے کہا تھا: آفتاب ! ناصر بشیر کو اپنی کتاب پیش کرو”۔یہ کتاب نہیں ایک معمولی سا روزنامچہ تھا۔آج یہ شخص اس کتاب کا ذکر بھی نہیں کرتا۔تب اچانک منظور وٹو وزیراعلی بن گئے اور اس موقع پرست کے ابا جی نے اسے ایڈیشنل ڈی۔جی۔پی۔آر لگوا دیا تھا۔سرکاری مکان بھی اس نے فورا” الاٹ کرا لیا تھا۔پھر اس کی روح میں تکبر بھرتا چلا گیا اور ہم جیسے لوگ اسے کیڑے مکوڑے محسوس ہونے لگے۔یہ اس چند روزہ عہدے سے فارغ ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک اس مکان پر قابض رہا۔یہ مکان اس نے اپنے نام الاٹ کرایا تھا یا پروفیسر بیگم کے نام پر یہ بات وہ خود ہی بتا سکتا ہے۔رہی بات اس کی زبان دانی کی تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ میرے سابق رفیق کار پروفیسر لیاقت عظیم کو معمولی سا اعزازیہ دے کر یہ شخص زبان و بیان کا سگمنٹ لکھوایا کرتا تھا۔جسے لوگ اسی کی تحقیق سمجھا کرتے تھے۔لفظ مخبر آفتاب اقبال ہر پروگرام میں غلط بولتا تھا۔آفتاب اقبال کی بیگم نسرین آفتاب اور ظفر اقبال صاحب مجھے روزنامہ” نئی بات” کے افتتاحی عشائیے میں ملے جو رائل پام گولف کلب میں ہوا تھا۔میں نے نسرین آفتاب کو بتایا کہ آپ کے شوہر نامدار ہر پروگرام میں لفظ مخبر غلط تلفظ کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ میں نے مخبر کا درست تلفظ بتایا تو نسرین آفتاب بولیں کہ وہ اگلے پروگرام میں آپ کا نام لے کر اپنی غلطی کی اصلاح کریں گے۔لیکن اس بے کم ظرف نے اصلاح تو کر لی لیکن میرا نام نہیں لیا۔میری ان باتوں کی تصدیق کے لیے آپ لیاقت عظیم صاحب اور نسرین آفتاب صاحب سے رابطہ کر سکتے ہیںں۔
آفتاب اقبال میں چھچھورا پن وراثتی ہے۔اس کے عظیم والدگرامی کو میں نے کئی مواقع پر چھوٹی حرکتیں کرتے دیکھا۔ان میں جوہر شناسی کا مادہ کتنا ہے؟ اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ 1985 میں وہ چیچا وطنی کے ایک مشاعرے کی نظامت کر رہے تھے۔یہ میرا پہلا بڑا مشاعرہ تھا۔فیض احمد فیض کی یاد میں ہونے والے اس مشاعرے کی صدارت ایلس فیض کر رہی تھیں۔میں غزل پڑھ چکا تو ظفر اقبال نے کہا: “ابھی آپ ایک چھوٹے شاعر سے بڑی غزل سن رہے تھے”۔گویا ان کا خیال تھا کہ میں نے کسی اور کی لکھی ہوئی غزل پڑھی ہے۔اگر وہ جوہر شناس ہوتے تو ان کا رویہ حوصلہ افزائی کا ہوتا۔آج سے آٹھ یا دس برس پہلے انھی ظفراقبال صاحب نے مجھے فون کیا اور بولے: “ناصر بشیر ! اگر آپ روزنامہ “پاکستان” میں چھپنے والے میرے تمام کالم تلاش کر دیں اور 68۔Bجی۔او۔آر تھری میں پہنچا دیں تو میں آپ کی شاعری پر ایک دھانسو قسم کا تعریفی کالم لکھوں گا”۔میں نے ان کا کام اس شرط پر کرنے کی ہامی بھری کہ وہ مجھ پر دھانسو قسم کا کالم نہیں لکھیں گے۔اسی بڑے آدمی ظفراقبال کو میں نے ایک بار طاہراسلم گورا کے اشاعتی ادارے (پاکستان بکس اینڈ لٹریری ساونڈز لوئر مال لاہور ) میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر نام ور کالم نگار جناب عطاالحق قاسمی سے لڑتے جھگڑتے دیکھا۔کبھی یہ کہتے کہ آپ نے مجھے فلاں مشاعرے میں نہیں بلایا، کبھی کہتے کہ فلاں مشاعرے کی روداد میں میرا نام مناسب مقام پر نہیں لکھا۔لیکن قاسمی صاحب نے ان کی ہر بات کا جواب ایک پروفیشنل صحافی کی طرح دلیل اور تحمل سے دیا۔جب یہ یک طرفہ جھگڑا بڑھا تو طاہر اسلم گورا نے دونوں کو اوپر والے کمرے میں بیٹھ کر کتھارسس کرنے کو کہا۔وہ چاہتے تھے کہ ان کے کلائنٹس ڈسٹرب نہ ہوں۔ گورا صاحب نے یہ کہ کر مجھے ان کے ساتھ بھیج دیا کہ تم ثالث کے طور پر موجود رہنا۔بس کچھ بولنا مت۔ایڈیشنل ایس۔پی ساہیوال اور ممتاز شاعر شوکت ہاشمی نے ایک بار مجھے بتایا کہ وہ ظفراقبال کی سب سے گھٹیا کتاب”غبار آلود سمتوں کا سراغ” کا سارے کا سارا ایڈیشن 50 ہزار کے عوض مختلف تھانوں کے ایس۔ایچ۔اوز کو فروخت کر چکے ہیں اور ظفر صاحب مزید کتابیں مجھے بھیجنے کی “دھمکی” دے رہے ہیں۔تو جناب !اس عظیم باپ کا بیٹا ہے یہ آفتاب اقبال۔یہ چھچھوری حرکتیں کیوں نہ کرے۔یہ فن تو اسے وراثت میں ملا ہے۔
گورنر خالد مقبول نیک دل آدمی تھے۔وہ شاعروں ، ادیبوں اور کالم نگاروں سے ملنے کے شوقین تھے۔مجھے بھی ان سے مکالمے کا بہت دفعہ موقع ملا۔میں نے ان کے ساتھ اندرون ملک انھی کا گاڑی میں کچھ سفر بھی کیے۔میں نے گورنر ہاوس میں کئی بار دیکھا کہ جناب مجید نظامی، جناب مجیب الرحمن شامی اور جناب عباس اطہر کی موجودگی میں آفتاب اقبال سب سے اگلی قطار میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بے ہودہ انداز میں بیٹھ جایا کرتا تھا۔مجھ ایسے کئی لوگ اس بات کو محسوس کرتے اور کسی طریقے سے اظہار بھی کر دیتے لیکن اس سب سے بڑے مہذب آدمی کے کان پر کبھی جوں بھی نہ رینگتی۔
آخر میں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ سہیل احمد اخلاقی، تہذیبی اور مذہبی روایات کی پاس داری کرنے والے آدمی ہیں۔وہ چھوٹے بڑے میں تمیز کرنا جانتے ہیں۔جب کہ ہمارے آفتاب اقبال صاحب پے در پے ٹھوکریں کھانے کے باوجود یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں سیکھ سکے۔انھوں نے کبھی یہ تجزیہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا کہ آخر ان کے وہ ساتھی بھی انھیں کیوں چھوڑ جاتے ہیں جنھیں وہ ماہانہ لاکھوں روپے دیتے ہیں؟۔ آفتاب اقبال صاحب! بات صرف اتنی ہے کہ پیسا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔عزت نہ ہو تو پیسا کس کام کا؟ آپ نے پیسا بہت کمال لیا۔اب تھوڑی سی عزت بھی کما لیجیے۔(ناصر بشیر)