تحریر: محمود شام۔۔
جمہوریت کی روح جمہور کی آواز ہے۔ جمہور کی یہ صدائیں صرف سوشل میڈیا پر بلند ہورہی ہیں۔ یہ وہی کچھ ہے جو ہم اس قوم کو 73سال سے دیتے آئے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہمیں حیران ہونا چاہئے نہ خوف زدہ۔ ایک تحقیق کے مطابق 3کروڑ 70لاکھ پاکستانی سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں۔یہ وہی پامال، نادار، افراد ہیں جو خود یا جن کے آبائو اجداد، عزیز و اقارب ہمارے اداروں کے جبر اور نا انصافیوں کا شکار ہوئے۔ جنہیں میرٹ پر روزگار مل نہ سکا نہ سکونِ قلب۔ کچھ تاریک راہوں میں مارے گئے۔ کچھ لاپتا ہو گئے۔ کچھ جلاوطن ہونے پر مجبور ہو گئے۔ان میں عدالتوں کے ستائے ہوئے بھی ہیں۔ جمہوری آمروں کے زخم خوردہ بھی۔ فوجی حکمرانوں کے ستم گزیدہ بھی۔ کچھ اپنے ہی سرداروں کے ظلم سے مجبور کچھ شہری مافیائوں کے شکار۔ ان کے آس پاس جو داستانیں گردش کرتی ہیں ۔
قائداعظمِ مادرِ ملت، قائدِ ملت، سقوطِ مشرقی پاکستان، قائدِ عوام کی پھانسی، محصورینِ بنگلہ دیش، کوٹہ سسٹم، قومیتوں کی ناکہ بندی، اظہار پر جبر وہ انہی کہانیوں کو فیس بک پر لے آتے ہیں، ٹویٹ کرتے ہیں، یو ٹیوب پر ڈالتے ہیں، انسٹا گرام پر تصویریں آویزاں کرتے ہیں۔ کچھ ہمارے علمائے کرام مشائخ مظالم کے مضروب ہیں۔ فرقہ پرستی میں الجھائے گئے ہیں۔وہ اپنے درد کا درماں اس حوالے سے اقوال اور واقعات میں تلاش کرتے ہیں۔ کورونا کے موجب لاک ڈائون میں سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہر مہینے اس میں کئی سو صارفین کا اضافہ ہورہا ہے۔ تحقیق یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہمارے عزیز نوجوان زیادہ فعال اور سرگرم ہیں۔
ہوا کیا ہے۔ بڑا میڈیا آزاد ہونے کے باوجود سب کچھ نہیں بتارہا ہے۔ وہ ہمارے نوجوانوں کی آرزوئوں اور مطالبات کی ترجمانی تو کیا کرے گا وہ ان کی فنون لطیفہ کی تشنگی بھی نہیں بجھاتا۔ موسیقی کے نام پر لیے گئے چینل موسیقی نہیں سناتے۔نوجوان دھنوں سے محروم ہیں۔ عشق کی رنگین اور حسین وادیوں میں لے جانے کے بجائے فارمولا ڈراموں میں حسد اور سازشیں دکھائی جاتی ہیں۔ معیاری ناولوں کی ڈرامائی تشکیل نہیں کی جاتی۔ اخبارات میں بھی نوجوانوں کی تمنّائیں صفحات کی زینت نہیں بنتی ہیں۔ بلوچ، پشتون، پنجابی، سرائیکی، سندھی، مہاجر، کشمیری، گلگتی سب خواب دیکھتے ہیں۔
اپنے خوابوں کا احترام کرتے ہیں۔ ان کو بانٹنا چاہتے ہیں۔ ایڈیٹر، ڈائریکٹر نیوز کی نگاہ میں ان خوابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان کے لیے وہ مخمصے زیادہ اہم ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں جڑی بوٹیوں کی طرح ازخود اُگ رہے ہیں۔سوشل میڈیا انسانی تحقیق اور ایجاد کی معراج ہے۔ کتنے سائنسدانوں نے سینکڑوں رت جگے کیے ہوں گے۔ تب موبائل فون ایجاد ہوا۔ صرف فون سننے کے لیے نہیں پوری دنیا جادو کی اس ڈبیا میں سمودی گئی ہے۔ ہزاروں صفحات کی دستاویزیں، کتابیں، کئی کئی گھنٹوں کی فلمیں اس میں محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ ہزاروں میل دور منتقل کی جاسکتی ہیں۔ یہ تو انسانیت کی قابلِ فخر میراث ہے۔ جس قوم کے پاس جو مشاہدات ہیں، تجربات ہیں، جو خواب ہیں، جو افکار ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہی آویزاں کرے گی۔ ہر ملک میں سوچنے والے ادارے ہوتے ہیں۔
یونیورسٹیاں، سرکاری محکمے قوم کو جس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ وہ دستاویزات، فلمیں، اقوال اس میڈیا پر دے رہے ہیں۔ ان کے معاشرے بھی مہذب ہیں۔ گھرانے بھی، ادارے بھی، اس لیے ان کا سوشل میڈیا بھی مہذب ہے۔ جن قوموں کو ان کے حکمرانوں، لیڈروں، جانبازوں، قانون دانوں، منصفوں نے دھوکہ نہیں دیا ہے وہ قومیں ان کا احترام کرتی ہیں۔ ان کے خلاف کچھ پوسٹ کرتی ہیں، نہ مذاق اڑاتی ہیں۔
جن قوموں نے اپنی تاریخ کے مغالطوں کو واضح کیا ہے۔ نا انصافیوں پر معافیاں مانگی ہیں۔ ستم زدگان کی تلافی کی ہے۔ آمروں کو بعد از مرگ سزائیں دی ہیں۔ نظریۂ ضرورت کے تحت کیے گئے فیصلوں پر نظرثانی کی ہے۔ قومیت، لسانی وابستگی، فرقہ وارانہ تعلق، طبقاتی فوقیت کو روزگار اور انصاف میں رُکاوٹ نہیں بننے دیا ہے ان کی فیس بک، یو ٹیوب، انسٹا گرام، واٹس ایپ پر ایسے سوالات ایسے واقعات دیکھنے میں نہیں آتے ہیں۔ وہاں تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ اسلاف کے کارنامے بتائے جاتے ہیں۔ اخبارات میں ایک عرصے سے ہر شعبے میں ایک ایڈیٹر انچارج ہوتا تھا۔ جو دیکھتا تھا کہ اظہار خیال کن الفاظ میں مناسب رہے گا۔
الیکٹرونک میڈیا میں ریٹنگ فوقیت حاصل کرتی گئی۔ سوشل میڈیا تو ایک بازار ہے۔ ایک میلہ ہے۔ یہاں پہلے سے کوئی روایات ہیں نہ ضابطے۔ یہاں بھی زیادہ تر گروپ تو ہماری سیاسی پارٹیوں، اداروں، بااثر مافیائوں نے تشکیل کیے ہوئے ہیں۔دریائوں پر بند باندھے جاتے ہیں نہریں نکالی جاتی ہیں تاکہ پانی کا استعمال مناسب انداز میں ہوسکے۔ انہیں بالکل بند نہیں کیا جاتا۔ بند غلط مقامات پر بنائے جائیں تو دریا کناروں سے بغاوت کردیتے ہیں۔
ایک ذمہ دار مملکت کی حیثیت سے اگر ہم اکیسویں صدی کی اس عظیم ایجاد سوشل میڈیا کی رعنائیوں اور وسعتوں پر غور کریں تو قوم کی تعمیرا ور اصلاح کے لیے یہ بنیاد بن سکتی ہے۔ قوم کے ذہنی رویوں سے آگاہی کے لیے یہ ایک گرانقدر وسیلہ ہے۔ پوری قوم کی تحلیل نفسی اس سے کی جاسکتی ہے۔ حکمراں اپنے بارے میں تاثرات جان کر اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ جن سوالات پر یہاں بحث چل رہی ہے۔
یونیورسٹیاں ان پر تحقیق کریں۔ یا ایک با اختیار کمیشن بناکر ان سوالات کے حقیقی جوابات کا تعین کرے ۔ بہت سے بنیادی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ قائد اعظم کی ایمبولینس خراب کیوں ہوئی۔ مادر ملت کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی یا نہیں۔ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بن سکا۔ بیورو کریسی کو تباہ کس نے کیا۔ سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار کون ہے۔سرکاری ادارے ہی نہیں۔ ہم سب اس خلفشار۔ انتشار کے ذمہ دار ہیں۔ سوشل میڈیا تو ایک وسیلۂ اظہار ہے۔ ورنہ گوادر سے واہگہ ہر ذہن میں یہی فیس بک چل رہی ہے۔ سوشل میڈیا کو تو غنیمت سمجھیں کہ یہ قوم کے ذہنی رویوں کو یکجا کرکے پیش کررہا ہے۔
دوسری قومیں اور تھنک ٹینک تو اس کے ذریعے جان رہے ہیں کہ پاکستانی قوم کس کرب میں مبتلا ہے۔اس کرب سے فائدہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس سے خوف زدہ ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔