تحریر: عمیرعلی انجم۔۔
نجانے وہ کون سا شہر تھا ۔۔لوگوں کے جسم ان کی فاقہ کشی کی داستان سنارہے تھے ۔۔لب ایسے خشک کہ صحرا بھی ان کے سامنے گلستان لگے ۔۔پاؤں ننگے اور سر کے بال دھول میں اٹے ہوئے ۔۔ایک بات ان سب میں مشترک تھی وہ یہ ان سب کے ہاتھوں میں قلم تھے ۔۔یہ میرے لیے کسی معمہ سے کم نہیں تھا کہ ان ’’لوگوں‘‘ کے پاس قلم کیسے ہیں ۔۔میں نے ایک شخص کو بلایا اور اس کی داستان سننا چاہی تو علم ہوا کہ وہ بولنے سے قاصر ہے ۔۔ میں نے جس سے بھی بات کرنا چاہی ہر شخص ہی بے زبان ہی نکلا ۔۔گونگوں کی یہ بستی میرے لیے کسی الف لیلوی داستان سے کم نہیں تھی ۔۔میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ سب بے زبان کس طرح ہوگئے ۔۔ان کے کیا دکھ ہیں ؟؟؟ یہ کون لوگ تھے ؟؟؟ یہ کیا کرتے تھے ؟؟؟ ان کی یہ حالت کس طرح ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ ان سب کے ہاتھوں میں قلم کیوں ہیں ؟؟؟ میں نے اشاروں کی زبان میں اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کی ۔۔۔مجھے ایسا لگا کہ وہ میری بات سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔۔اور پھر ان میں سے شایدایک شخص جان گیا کہ میں ان سے کیا معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔۔اس نے اپنی بے خواب آنکھوں سے میری جانب دیکھا اور مجھے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا ۔۔میں اس کے ساتھ روانہ ہوا ۔۔نجانے وہ مجھے کہاں لے کر جارہا تھا ۔۔ میرے تجسس میں اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔۔اور پھر میں ایک منظر دیکھ کر حیران رہ گیا ۔۔ہر جگہ ’’بینرز‘‘لگے ہوئے تھے ۔۔ان پر درج تھا کہ ’’ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے ‘‘، تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو ،جبری برطرفیاں نا منظور ‘‘ اور پھر وہ شخص مجھے لے کر ایک بینر کے سامنے آگیا اور بلک بلک کر رو پڑا ۔بینر پر لکھا تھا ’’زندہ ہے صحافی زندہ ہے ‘‘۔۔( عمیر علی انجم)