تحریر: شکیل بازغ۔۔
آج بانی پی ٹی آئی کو 9 مئی کے اسلام آباد کے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج دومقدمات میں بری کر دیا گیا۔ گذشتہ روز ایک نیوز کے پروگرام ریڈ زون ود فہد حسین میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا بولے کہ بانی پی ٹی آئی کی جلد رہائی نظر نہیں آ رہی انہوں نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ تحریک انصاف پابندی کی طرف نہ چلی جائے۔
کروڑوں لوگوں کی طرح میری بھی ذاتی خواہش ہے کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں بقیہ زندگی گزارے اور تحریک انصاف کا وجود نہ رہے۔ ماضی میں چاہتے تو ہم یہ بھی تھے کہ نواز اینڈ کمپنی جلا وطن ہی رہیں ن لیگ قصہءِ پارینہ بن جائے زرداری کو گدھ اٹھا کر لے جائیں۔ مگر خواہش خواہش ہوتی ہے اور حقائق حقائق ہوا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت نظریہ ضرورت کے تحت چلتی ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس کے اپنے آئین و قوانین کو بوقت ضرورت روند کر نظام بچانے کیلئے اپنے مُہروں، نمائندوں، نظریات، اصولوں قواعدو ضوابط سے کُلی انکار کرنا پڑتا ہے۔ اس نظام میں کل کے پاک صاف آج کا تعفن اور آج کا تعفن کل نظام کیلئے سب سے موزوں قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
تحریک انصاف ہو ن لیگ ہو پیپلز پارٹی ہو بی این پی ہو اے این پی ہو ایم کیو ایم ہو، ان کی قیادتوں کو نظریہ ضرورت کے تحت مختلف اوقات میں غدار ملک دشمن زہر قاتل اور جانے کیا کیا کہہ کر عدالتوں جیلوں میں گھسیٹا گیا۔ اس نہج پر اتنا بڑا کھیل رچانے سے پہلے ان کو پورے لاؤ لشکر شد و مد سے لانچ بھی تو کیا گیا تھا۔ ایک کو ڈبو کر دوسرے کو ابھارا گیا۔ ایک کا بظاہر سورج غروب ہوا تو دوسرے کا طلوع ہوا۔ دوسرے کا غروب ہوا تو پہلے کا طلوع ہوا۔ یہ ڈھلتی شام کے سائے اور سحر کا نور ہر پارٹی ہر سیاسی قائد نے اپنے سیاسی کریئر میں بارہا دیکھا ہے۔ تحریک انصاف کو اس لئے لایا گیا کہ اس نوجوان نسل کو جمہوریت کا پابند بنایا گیا جو کہ بہت جلد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی نورا کشتی سے تنگ آکر جمہوریت سے اکتانے والی تھی۔ کیونکہ اس نسل پر بھی جمہوریت کا مکروہ چہرہ فاش ہونے کو تھا۔ بروقت تحریک انصاف کی لانچنگ پر کام شروع کر دیا گیا۔ لاہور میں بڑا جلسہ پھر 126 دن کا دھرنا۔ خان کی زبان سے وہ باتیں شعور دینے کے نام پر نکلوائی گئیں جو آئندہ نوجوانوں کی زبان پر سوالات ہوسکتے تھے۔ ان سوالات کو وقت سے پہلے خان نے اچھالا، ان کے جوابات بتائے۔ سسٹم کو دو پارٹیوں کی رکھیل بتا کر ہر شعبے کو رگیدا اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر بیٹھ کر ملک کے وزیر اعظم آ بنے۔ دیگر پارٹیز بھی اسی طرح لانچ ہوئیں۔ اسی رستے سے اقتدار میں آئیں۔ خان کے 4 سالوں نے زرداری کی ماضی کی حکومت کے غم بھلا دیئے۔ جمہوریت کے اس نئے نمائندے کے دور میں مہنگائی اور شخصی ضلالت نے عوام پر عرصہءِ حیات تنگ کر دیا۔ اگر خان کو وقت سے پہلے باہر نہ کر دیا جاتا تو یہ دوبارہ مستقبل میں اقتدار میں پاک صاف ہو کر آنے کے قابل شاید نہ رہتا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ خان کو مظلوم بننے کا موقع نہ دیا جاتا تو مستقبل میں بیچنے کو کچھ نہ ہوتا۔ بالکل ایسے ہی کہ نواز شریف کو سسلیئن مافیا تو عدالتوں میں کہا گیا۔ نواز اینڈ کمپنی کو ملک کیلئے زہر قاتل قرار دیا گیا۔ لیکن آج وہی ٹولہ پھر سے اقتدار میں ہے۔ اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے نواز شریف کے پارٹی صدر سے متعلق فیصلے اور پانامہ اور پیراڈائز لیکس سب کہاں گئے؟ نظریہ ضرورت کے بھینٹ چڑھ گئے۔
ملک کے اندر تو کیا ملک سے باہر بھی ہمارے چال چلن محبت نفرت کے معیارات وقت کے ساتھ شفل ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت کو کبھی جذبہ خیر سگالی کے تحت امن کے لڈو کھلا رہے ہوتے ہیں۔ تو کبھی ان کی دراندازی پر توپیں داغ دیتے ہیں۔ آج کل ہم افغانستان کی منجھی ٹھوک رہے ہیں تو کل کیا معلوم ہم ڈیورنڈ لائن کو بھی لائن آف کنٹرول کی طرح نفرت کی لکیر کہہ ڈالیں۔
یہی میں عرض کر رہا ہوں کہ جمہوری نظام حکومت جزوقتی اصولوں کے تحت ابن الوقتوں کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ جن کا کرپٹ ہونا اس لئے ضروری ہے تاکہ لگام رہے۔ ہر پارٹی کے سر پر اس کے الحاق شدہ پارٹی یا مخالف پارٹی کا چھِتر لہرائے رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی بھی مطلق العنان بننے کا سوچے بھی نہ۔ بانی پی ٹی آئی کے موجودہ تمام کیسز اور 9 مئی کے تمام واقعات سب کے سب تبدیل ہو جائیں گے۔ زندگی رہی تو اسے دوبارہ اقتدار ملے گا۔ کیونکہ آئندہ دور میں اداروں کے افراد کے ساتھ نظریات اور جمہوریت کی ضروریات تبدیل ہو چکی ہونگی۔ عوام پر یہی لوگ چہرے بدل بدل کر مسلط ہوتے رہیں گے۔ اور عوام انہی کے غم میں کبھی گھُلتے آپس میں الجھتے یا خوشی میں بغلیں بجاتے نعرے لگاتے رہ جائیں گے۔ جمہوریت قائم رہے گی۔ اور ہمارے بعد ہماری نسلیں ان خاندانوں کے بچوں کو آخری امید مان کر کولہو کے بیل بنے رہیں گے۔
دوخوشخبریاں سن لیں!
آج ہم چین کی مدد سے دوسرا سیٹلائٹ بھی خلا میں بھیج رہے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہو گیا ہے جن کے ہاں آلو بہت پیدا ہوتے ہیں۔۔(شکیل بازغ)۔۔