تحریر: ناصر جمال۔۔
آخر ریاست، اپنی تخلیق کے جواز، ایک، ایک، کرکے کیوں کھوتی جارہی ہے۔ اس کے شہریوں کی نہ باہر کوئی عزت ہے اور نہ ہی اپنے ملک کے اندر ہے۔ ریاست، ملک، عوام، ادارے سب تماشا بنے ہوئے ہیں۔ جس ریاست کے فیصلے ”اوسط ذہانت “والے کریں گے۔ وہاں یہی کچھ ہونا تھا۔ اور یہی کچھ ہوگا۔ اگر آپ کسی ’’بہتری‘‘ نامی کسی خوش فہمی کا شکار ہیں تو، اپنے دل سے نکال دیجٸیے۔ یہاں کچھ نہیں بدلنے والا۔ ایسا لگتا ہے، ہم طبعی عمر پوری کرچکے ہیں۔ اب’’بونس‘‘ پر چل رہے ہیں۔ بالی وڈ کی انتہائی زہریلی فلم ’’بٹوارہ 1947ء‘‘ دیکھی۔ گاندھی، نہرو، مائونٹ بیٹن(ڈکی) اور مسز مائونٹ بیٹن کو ”پُوتر“ اور اعلیٰ کردار کے حامل دکھایا گیا۔ بابائے قوم کا قد انتہائی چھوٹا دکھانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ جبکہ تخلیق پاکستان کو گورا اسٹیبلشمنٹ کا اسکرپٹ قرار دیا گیا۔ فلم دیکھ کر تکلیف تو بہت ہوئی۔ تاریخی حقائق، جدوجہد، حالات، وقت کا جبر، سب کو مسخ کر دیا گیا۔
مگر پاکستان کا جو خواب ایک نسل نے دیکھا تھا۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ یہ پاکستان تو قطعاً نہیں ہے۔ اقلیتیں تو چھوڑیں، یہاں تو مسلمان محفوظ نہیں ہیں۔ پاکستانی شہری، یہ کیا چیز ہوتی ہے۔علامہ مشرقی نے ٹھیک کہا تھا کہ ’’گورے چلے جائیں گے۔ یہ ہمیں کالے گوروں کے حوالے، ایک اور بدترین غلامی میں دھکیل جائیں گے۔‘‘ ان کا پاکستان بننے سے سات، آٹھ سال پہلے کا گورا اسٹیبلشمنٹ کو خط، آج بھی سچائی اور وژن کو مکمل لَو دے رہا ہے۔ 75سال ہونے کو آئے ہیں۔ کیا بدلا ہے۔ کوئی ادارہ بتا دیں یا سیاستدانوں، نوکر شاہی، ملائوں سے سیٹھوں کی سوچ، رنگ ڈھنگ کچھ تو بتائیں جو بدلی ہو۔ آج یہ ملک ایک آتش فشاں پر بیٹھا ہے۔
جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو خبر چلنا شروع ہوئی ہے۔ ایاز امیر پر لاہور میں تشدد ہوا ہے۔ وہی نامعلوم افراد، بظاہر اسے اسٹریٹ کرائم کا نام دیا گیا ہے۔ ایبٹ روڈ پر نجی، ٹی۔ وی کے باہر، اس حرکت کا کیا مطلب ہے۔ آخر کسی مقدس گائے یا ہستی پر تنقید کیوں نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے بہت ہی عمدہ پیرائے میں خوبصورت گفتگو کی تھی۔ کیا انھوں نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ اب اس طرح سے آواز کو دبایا جائے گا۔ یہ راستہ تو ہمیشہ الٹا پڑا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس دلیل ختم ہوگئی ہے۔ اس ملک کو پون صدی سے آپ نے جیل بنایا ہوا ہے۔ آپ نے کونسا قومی اتفاق رائے حاصل کر لیا۔ فوجی ہوں یا سویلین آمر، ان کے لچھن نہیں بدلتے۔ حبیب جالب ؔیاد آئے
فصل جو گولیوں کی بو رہے ہو
وطن کا چہرہ لہو سے دھو رہے ہو
گماں! تم کو کہ کٹ رہا سفر
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
جالب12مارچ1993ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ اشعار پچاس سال پہلے کے ہیں۔ سچا کون ہے۔ یقینی طور پر جالبؔ ہی ہے۔ پھر کچھ لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی۔ ان کی من مانیوں، باہمی لڑائیوں نے اس ملک کو پہلے دولخت کیا۔ اب تباہ و برباد کردیا۔ آخر انھیں کب چین پڑے گا۔ ملک کو پہلے جیل بنایا، اب اس کو چوہے دان میں تبدیل کرنے سے کیا ہوگا۔ اداروں، رہبروں نے ایک دوسرے کی داڑھیاں پکڑی ہوئی ہیں۔ اوپر سے یہ سمجھتے ہیں۔ بائیس کروڑ لوگ اندھے ہیں۔ لوگ وہاں پہنچ چکے ہیں۔ اگر یہ اب بھی نہیں بدلیں گے تو، زندہ لاشیں بن جائیں گے۔ اس ملک کے میڈیا میں چند آوازیں بچی ہیں۔ ان کو خاموش کروانا مقصود ہے۔ میں کسی حامد میر، صدیق جان، صالح ظافر، عمران تیتر، اسد طور، کامران خان، ابصار عالم، ارشد شریف، یا اُن جیسوں کی بات نہیں کررہا۔ جو اپنا ایمان، قلم، ضمیر، سب کچھ گروی رکھ چکے ہیں۔ حتی کہ روح بھی۔
میں تو ”صحافتی ضمیر“ کی بات کررہا ہوں۔ پاکستانی سارتروں کی مگر یہاں کوئی ڈیگال نہیں ہے ۔ جو کہے کے صحافی تو اس ملک کا ضمیر ہیں، میں اُن کو ساتھ اتنی گھٹیا حرکت کیسے کر سکتا ہوں ۔جو کبھی ضیاء الدین مرحوم تو کبھی رئوف کلاسرہ، کبھی ایاز میر، کی شکل میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ کبھی مسعود ملک کی شکل میں آمر کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ وہ کبھی فاروق فیصل خان تو کبھی شہباز رانا، کبھی قیوم صدیقی تو کبھی نادر شاہ عادل، خلیق کیانی، جی۔ ایم۔ جمالی اور کبھی سید سعود ساحر کی شکل میں ڈٹ کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس میدان میں بہت سی آوازیں ہیں۔ جو ہر سمت سے ابھرتی رہتی ہیں۔ کبھی ثناء اللہ خان، طاہر شیرانی، کبھی عاطف شیرازی، سہیل بھٹی، فرخ نواز بھٹی، امتیاز فاران، آغا خالد، صفدر بھائی اور طاہر نور جیسی توانا اور نوجوان آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
پچھترسالوں سے صحافت اور صحافیوں کے خلاف آپریشن کلین۔ اپ جاری ہے۔ یہاں بہت سے میر جعفر، میر صادق اور بروٹس داخل کئے جاتے رہے اور کئے جارہے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا، صحافت کے میدان میں آج تیسری نسل آیا چاہتی ہے۔ ضمیر کی آواز پر قلم اور لب چلانے والے تو پہلے سے زیادہ ہوئے ہیں۔
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا، یا ہاتھ قلم رکھنا
یہ قلم ہی تو ہے۔ جو بندوق اور صندوق والوں کو ہمیشہ سے کھٹکتا ہے۔ اور کھٹکتا رہے گا۔ تو کیا ہم ڈر کے اپنے قلم طاق میں رکھ دیں۔ احمد فراز کی نظم محاصرہ یاد آئی۔ شبلی فراز اور عمران خان، آج کل فارغ ہیں۔ یہ نظم پھر سنیں اور کہیں چُلو بھر پانی میں ڈوب مریں۔ انھوں نے تو ہمارا گلہ کسی آمر کے مقابلے میں زیادہ ڈھٹائی اور سختی سے پکڑا تھا۔ ’’ڈریکونین لا‘‘ لائے۔ اس پر شرمندہ بھی نہیں ہیں۔ اب اس پر فواد چوہدری کو کیا کہوں۔ کمال ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں۔ اتنے بے ضمیر ہوچکے ہیں۔ اب تو، انھیں کہیں شرمندگی بھی محسوس نہیں ہوتی۔
پتا نہیں ہمارا کیسے لوگوں او کیسی نسل سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ یہ ہر چیز ہی بربادکر دینا چاہتے ہیں۔ اوپر سے نعرہ تعمیر کا لگاتے ہیں۔ہماری پوری سیاسی اشرافیہ’’توشہ خانے‘‘ میں برہنہ لیٹی ہے۔ اوپر سے مان نہیں رہی۔جبکہ اُن کے حواری اس پر فخر کرتے ہیں۔ ابھی تو ہماری عسکری اشرافیہ کے تحفوں کا نہیں پتا، وہ کیا کرتے رہے ہیں۔ سنا مشرف تو امیر مقام اور خواتین میں پستول اور خنجر بانٹ دیا کرتے تھے۔ امیر مقام اُن کے ’’پستول بدل بھائی‘‘ تھے۔ پھر انھوں نے اپنا’’بھائی‘‘ بدل لیا۔ بہر حال ریکارڈ تو سب کا ہونا چاہئے۔ وہ وزیر ہوں۔ یا سفیر، صدر ہوں یا جرنل، تحفے تو ریاست کے ہوتے ہیں۔
میجر (ر)ایاز امیر کے واقعہ نے قلم کا گھوڑا دوسری طرف موڑ دیا۔ اب جبکہ صفحہ تھوڑا رہ گیا تو، کالم کے عنوان کی طرف آتا ہوں۔اسلام آباد انتظامیہ پر کالم لکھا تھا۔ اس کے بعد، اُسی مقام پر جی۔ ایٹ میں 30جون کو اپنی آنکھوں سے پولیس کا دھاوا بھی دیکھا۔ ایک حوالدار اور ایک سپاہی، بھتہ نہ دینے والے ہوٹل کے لوگوں کو پکڑ رہے تھے۔ جبکہ بھتہ دینے والے ٹھیے، رات بارہ بجے بھی پوری آب و تاب چل رہے تھے۔ کراچی کمپنی تھانہ کے ان اہلکاروں نے ایک نوجوان کو پہلے مارا بھی تھا۔ وہ خود کو آرمی آفیسر کہہ رہا تھا۔ شایدکوئی کیڈٹ تھا۔اسلام آباد پولیس ’’بائولی‘‘ ہوگئی ہے۔ وہ بھتہ کی وصولی کیلئے ، شہریوں اور تاجروں کو بھنبھوڑ رہی ہے۔ رانا ثناء اللہ کے ڈی۔ جی، علی نواز ملک کو میں نے اُسی وقت فون کیا۔ پوچھا، اس شہر میں ہوکیا رہا ہے۔ ایک دن پہلے یہیں اے۔ سی نے غنڈہ گردی کی۔ ڈپٹی کمشنر اب اس کی پشت پناہی کررہا ہے۔ آج پولیس پل پڑی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ آئی۔ جی سے بات کرتے ہیں۔
نہ پہلے کچھ ہوا تھا۔ نہ اب ہونا ہے۔ جو صاحب آئی ۔جی لگے ہیں۔ ان پر سیف سٹی میں اربوں روپے کرپشن کے الزامات ہیں۔ کیونکہ نواز دور کے الزامات ہیں۔ وہ آجکل” گنگا جل “سے صاف ھوگئے ہیں۔ انھیں جلتا ھوا ، لاقانونیت کا گڑھ اسلام آباد شہر نظر نہیں آرہا۔ جہاں ان کے ھرکارے جسے چاہے لوٹ لیں، جسے چاہے ذلیل کر دیں۔ غلام شہریوں کے مائی باپ جو ٹھہرے۔کراچی کمپنی تھانہ ، اس حوالے سے سب کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ جہاں جتنی تجاوزات، کاروبار، وہاں اتنے ہی بھتے، پولیس کی سرپرستی میں جرائم، قبضے عام ہیں۔ اس پر انتظامیہ کا ساتھ ہو تو کمال ہی ہے۔
اسلام آباد میں سب سے آسان، پریشانیوں سے پاک کام پوڈر سمیت منشیات کی فروخت ہے۔ ایس۔ ایچ۔ او کو ماہانہ بھتہ پہنچا دو۔ منشیات فروشوں کو قانونی تحفظ مل جاتا ہے۔ پھر اگلے مہینے تک سکون، کاروبار کرنے والا، تیرہ اداروں، بھتہ خوروں سے روز نبرد آزما ہوتا ہے۔ تحریک انصاف والے طعنے مارتے ہیں۔ اور بنائو، رانا ثناء اللہ کوو زیر داخلہ، ظاہرہے یہاں تو ایک ہی کاروبار پھلے پھولے گا۔
قارئین۔۔اس وقت اسلام آباد میں سب سے خطرناک کاروبار ہوٹلوں کا ہے۔ جو ملکی معیشت کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ ان ہوٹلوں کو بندنہ کیا گیا تو معیشت بیٹھ جائے گی۔ ہاں اگر آپ سب کو مسلسل بھتہ دیں تو،معیشت سنبھل سکتی ہے۔ یقین نہ آئے تو جی\۔الیون مرکز میں چلے جائیں۔ جہاں ہمارے مستقبل کے پی۔ ایس۔ پی۔ ایم، عامر احمد علی نے فٹ پاتھ پر 100کے قریب ٹھیلے لگوا کر وزیراعظم سے افتتاح کروا دیا۔ پھر کہتے ہیں بوٹا۔۔۔(ناصر جمال)۔۔