media ki barbaadi ab bhugto

بندوق قلم سے کیوں خوفزدہ  ؟؟۔۔

تحریر: ناصر جمال

یہ کون لوگ ہیں۔ جو ایک 72سالہ قلم کار سے ڈر گئے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ سابقہ میجر بھی ہے۔ یقینی طور پر وہ کئی چیفس کا سینئر بھی ہوگا۔ آخر پٹائی، تذلیل او رکپڑے پھاڑنے کا مقصد کیا پیغام دینا ہے۔ اس کے لئے یقینی طور پر کسی بے ضمیر نے، بے حس اور بے ضمیر ہی بھیجے ہوں گے۔ جنہیں سفید داڑھی، بزرگی، کسی کا بھی حیا نہیں آیا۔ قلم کی حرمت، خدمات تو بہت آگے کی باتیں ہیں۔ یہ کتنے بزدل ہیں۔ ایک سینئر سیٹیزن پر چھ لوگ گھات لگا کر حملہ کرتے ہیں۔ پھر بھاگ جاتے ہیں۔ کیا شیر ہیں۔ پولیس اس میں سے اب پرانی دشمنی برآمد کرنے آگئی ہے۔ اگر ’’حملہ آور‘‘ نہیں پکڑے جاتے تو کھرہ وہیں جائے گا۔ جہاں پر جاکر نشان گم ہوجاتا ہے۔ جالبؔ نے کہا تھا کہ

بندوقوں والے ڈرتے ہیں

اک نہتی لڑکی سے

یہ کیسے بندوق والے ہیں۔ جو آج 37سالوں کے بعد، ایک 72سالہ قلم کار سے ڈرتے ہیں۔ اس کی سات منٹ کی تقریر انھیں ہضم نہیں ہوئی۔ ویسے سات منٹ میں، اُس نے کونسی غلط بات کہی ہے۔ اگر ایاز امیر نے ڈی۔ ایچ۔ اے، توسیع، تبدیلی حکومت پر بات کی ہے تو کیا اُس نے عمران خان کے مُنہ پر نہیں کہا کہ پاکستان کی تباہی میں جناب کا بھی حصہ ہے۔ آپ نے پاکستان کو پراپرٹی ڈیلروں کے حوالے کر دیا تھا۔ اقبال اور جناح صاحب کی تصاویر کی جگہ، دو پراپرٹی ڈیلروں کی تصاویر لگادیں۔

یہ ایاز امیر ہی ہے۔ جس نے اپنے ضمیر کی آواز پر اسمبلی کی رکنیت چھوڑ دی تھی۔ اتنی جرات تو آج نام نہاد انقلابی عمران خان اور جعلی چی گویرا شی،خ رشید میں بھی نہیں ہے کہ وہ استعفیٰ دینا تو دور کی بات، اپنے استعفیٰ کی اسمبلی جاکر تصدیق ہی کردیں۔

(ن) لیگ کا اجلاس، میاں نواز شریف کی زیر صدارت ہورہا تھا۔ لوگ سوال کررہے تھے۔ اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے تھے۔ میاں نواز شریف نے MNAایاز امیر سے پوچھا ، جی، آپ کیا کہتے ہیں۔ ایاز امیر نے آگے سے کہا کہ ’’میں نے تو کوئی سوال ہی نیہں پوچھنا اور نہ ہی میں نے اس کااظہار کیا ہے۔ آپ کیوں اپنا اور میرا وقت ضائع کررہے ہیں۔ پوری میٹنگ پر سناٹا چھا گیا۔ میری نواز شریف کی حالت’’دیدنی‘‘ تھی۔ ایاز امیر تو ایسا ’’پاگل انسان‘‘ ہے۔

ایاز میر نے تین اشخاص کے فیصلوں کے حوالے سے جاندار بات کی ہے۔ توسیع کی مدت سات سال بھی انتہائی سنجیدہ بات ہے۔ اُسے قانون بنانے پر ملامت تو انھوں نے سیاستدانوں کی ہے۔ جنھوں نے باجماعت ، بلاتصخیص ووٹ ڈالے، مراعات لیں اور چمپت ہوگئے۔ ہر کسی نے حصہ بقدر جثہ ضرور وصول کیا ہے۔ ضیاء الحق نے کہا تھا کہ یہ آئین کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ میں جب اشارہ کروں گا۔ یہ ’’تمام‘‘ سیاست دان  دُم ہلاتے چلے آئیں گے۔ توسیع کے قانون پر قطار در قطار ووٹ دے کر ہمارے سویلین دوستوں نے، ضیاء الحق کے بیان پر مہر ثبت کی ہے۔ کیا ایاز امیر نےعمران خان کے امریکی مداخلت کے بیانیے کو اُس کے سامنے لپیٹ کر منہ پر نہیں دے مارا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ عمران خان کو لانے والوں نے ہی، اُسے نکالا ہے۔ اس ملک کے بچے، بچے کو پتا ہے۔ عمران خان نے کونسی سیاسی جدوجہد کی ہے۔پہلے وہ مشرف کے تلوے چاٹتا تھا۔پھر جنرل کیانی کے پاؤں پکڑ لیے۔آگے تو پھر ایک تاریخ ہے۔ پھر آپ ’’سیخ پا‘‘ کیوں ہیں۔

نواز شریف، رانا ثناء اللہ، مریم، پرویز رشید، مشاہد اللہ مرحوم، آصف زرداری، الطاف حسین اور بہت سے قوم پرست ہیں۔ جن کی ’’گستاخیاں‘‘ تو بہت زیادہ تھیں۔ پھر بھی سب کو سینے سے لگا لیا۔ عمران خان اور اُنکی جماعت کی حالیہ ’’لن ترانیاں‘‘ سب کو پیچھے چھوڑ گئیں۔ وہ تو ملک کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے بیانات دے رہے تھے۔۔رانا ثناء اللہ نے تو صرف یہی کہا تھا کہ میرے اوپر 25 من ڈالی گئی تھی۔میرا یہ وعدہ ہے کہ میں 25 گرام بھی اندر نہیں جانے دوں گا۔ پھر شیر بہادر کے۔ پی۔ میں چھپ کر بیٹھ گئے۔راہداری ضمانت تو کب کی ہوا چکی ہے۔ آج آخر رانا ثناء اللہ کی زبان سے اتنی مٹھاس کس کے کہنے پر ٹیک رہی ہے۔

ایاز امیر نے تو دائنشمندانہ باتیں کی ہیں۔ عمران تیتر کا خطاب کیا تھا۔ اصل ’’چارج شیٹ‘‘ تو وہ تھی۔یہ کیا بات ہوئی، جو آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلے، اُس کو سو قتل معاف ہیں۔ ایک بوڑھا قلم کار، اگر آئینہ دکھائے تو اُسے ٹارگٹ کیا جاناکتنی چھوٹی حرکت ہے۔اس پر بیانات دینے، بریفنگ دینے، والوں کی آفیشل وضاحت بہت ضروری ہے۔ اس حرکت سے لاتعلقی کا اعلان لازمی طور پر ہونا چاہئے۔ اگر یہ حرکت ہوئی ہے اور اگر نہیں بھی ہوئی۔ تب بھی وضاحت اور اظہارلاتعلقی اشد ضروری ہے۔نوابزادہ نصر اللہ خان نے کہا تھا کہ ’’فوج نے آنا ہے تو وردی اتار کر آئے۔یہ 23سال پہلے کا بیان ہے۔ آج بھی یہ تازہ اور حالات کے عین مطابق ہے۔

آخر کب تک اس ملک میں یہ تماشا لگا رہے گا۔ آپ سب کچھ کریں اور پھر قوم اور میڈیا کو یہ کہیں کہ ہم تو ’’معصوم‘‘ ہیں۔ ہمارے ہاتھ صاف ہیں۔ جنرل حمید گل سے لیکر نرل احسان، جنرل ظہیر الاسلام جنرل شجاح پاشا اور جنرل فیض تک، کیا تمام کہانیاں آشکار نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن سے لیکر ق لیگ اور تحریک انصاف کو بالغ کرنے کی تمام حرکات کیا آشکار نہیں ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ پٹائی، آپ صحافیوں کی ہی کیوں کرتے ہیں۔ پے رول والے، ناخلف، وفاداری تبدیل کرنے والے صحافی ہوں یا سیاستدان، وہ جانیں، آپ جانیں۔

مگر جو لوگ اس معاشرے کا ضمیر ہیں۔ جن کا قلم اور زبان، مراعات، لالچ، عہدوں کے بغیر چلتا ہے۔ جو پارٹی نہیں ہیں۔ جو اپنے قلم اور بات کو ملک اور قوم کی امانت سمجھتے ہیں۔ ان سے 36کا آکڑہ بنتا نہیں ہے۔ بقول برادرم رئوف کلاسرہ کے یہ معاشرے کے Necessary Evilہوتے ہیں۔ ان سے صرف نظر کیا جانا چاہیئے۔ 7لاکھ 22کروڑ کو اپنے جیسا نہیں بنا سکتے۔ 75سالوں میں تو کامیابی نہیں ملی۔ آگے بھی نہیں ملے گی۔ سات لاکھ کو آخر خود کو بدلنا پڑے گا۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ شفر کسی ناخوشگوار طریقے سے مکمل ہو۔ راستہ وہ اختیار کریں۔ جس میں سب کی عزت رہ جائے۔ سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ روزانہ چھوٹے بچوں کی طرح روتے، روتے، سپریم کورٹ اور پنڈی صدر نہ پہنچ جایا کریں۔ ستر، ستر سال کے ہوگئے ہیں۔ مسائل پارلیمنٹ میں حل کریں۔ توسیع پر مکمل پابندی لگائیں۔ وہ توسیع کسی جج، جرنیل، بابو، جس کی بھی ہو۔ تماشا بند ہوناچاہیئے۔ اسی طرح سے فواد حسن فواد، احد چیموں، ارباب شہزاد والے ڈرامے بھی بند کریں۔ انھیں لانا ہے تو سیاستدانوں کی قبا پہنائیں۔ ذاتی وفاداروں کی فوج والی سوچ کو چھوڑنا ہوگا۔ ہر قسم کی توسیع پر پابندی کو آئین کا حصہ بنا دیں۔ اسی طرح سے فورسز کی چیف کی تعیناتی کو ادارہ جاتی بنائیں۔ میکنزم بنائیں۔ اداروں کی حدود متعین ہونی چاہئے۔ جج، کیریئر ججز ہوں۔ وکیلوں سے جج لینے کاتماشا بہت ہوچکا۔

میڈیا کو ختم کرنے ، دبانے ’’مسلمان‘‘ کرنے کا نابغہ روزگار اسکرپٹ ختم کریں۔ قلم کو بندوق سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ (ناصر جمال)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں