ہم سے ماہ رنگ بلوچ کی پریس کانفرنس روکنے کے لیے کہا گیا، ہم نے انکار کیا۔ پھر حکام دو بڑے اردو اخبارات کے دفاتر میں گئے اور پیسٹنگ ٹیبل سے ماہ رنگ کی خبر ہٹائی گئی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے جنرل ضیاالحق کے دور میں ہوتا تھا جب سینسرشپ تھی اور سینسر افسر اخبارات میں سے خبریں نکالتے تھے۔یہ بیان کوئٹہ سے شائع ہونے والے روزنامہ انتخاب کے ایڈیٹر انور ساجدی کا ہے جن کے مطابق حال ہی میں مستونگ سے شروع ہو کر گوادر پہنچنے والے احتجاج کی خبریں شائع کرنے کے بعد ان کے اخبار کے اشتہارات بند کر دیے گئے۔اخباری مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں انور ساجدی کے بیان کی تصدیق کی گئی اور کہا گیا کہ بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں طویل عرصہ تک پریس ایڈوائس کے بعد اب باقاعدہ سنسرشپ نافذ کر دی گئی ہے۔بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند سینسر شپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’کوئی تحریری حکمنامہ دکھا دیں جو حکومت نے جاری کیا ہو۔تاہم اے پی این ایس کے بیان میں یہاں تک کہا گیا کہ ’بلوچستان میں محکمہ تعلقات عامہ کے وہ افسران اخبارات کے دفاتر جا کر ناپسندیدہ خبریں کی اشاعت رکوا دیتے ہیں جو اشتہارات جاری کرنے کا بھی اختیار رکھتے ہیں۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں صرف انتخاب اخبار کے اشتہار بند کرنے کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ’بلوچستان حکومت کو آمرانہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔بی بی سی اردو کے مطابق پاکستان میں سینسر شپ کی شکایت نئی نہیں اور نہ ہی یہ چھوٹے اخبارات تک محدود ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جن سے جڑی خبریں سوشل میڈیا پر تو نظر آتی رہیں لیکن بہت سے صارفین یہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مین سٹریم میڈیا یعنی بڑے نشریاتی ادارے ان واقعات کو دکھاتے نہیں یا پھر ایک مخصوص زوایے تک محدود رہتے ہیں۔ایسے میں بنوں میں احتجاج کا معاملہ ہو یا پھر حال میں گوادر میں ہونے والا دھرنا، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی کے بلوں کا تنازع ہو یا پھر کرم میں ہونے والے فسادات، سوشل میڈیا پر ان واقعات سے جڑی افواہیں، دعوے، غیر مصدقہ تصاویر اور ویڈیوز کی بہتات یہ فیصلہ مشکل کر دیتی ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں امن مارچ پر فائرنگ کے بعد سوشل میڈیا پر متعدد ہلاکتوں کی خبریں تصاویر اور ویڈیوز عام ہوئیں۔ اسی طرح بلوچ یکہجتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران بھی مختلف علاقوں بالخصوص مستونگ میں زخمیوں اور ہلاکتوں کی تعداد پر سوشل میڈیا پر متضاد دعوے کئےگئے جبکہ حقیقی تعداد کم تھی۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بڑے نشریاتی ادارے ان واقعات کو کیوں نمایاں جگہ نہیں دیتے اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر فیک نیوز پروان پاتی ہے؟۔