بلوچستان میں مبینہ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آوازاُٹھانے کیلئے تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے والوں کے حوالے سے کہا گیا کہ جلد ہی میڈیا کو بتا دیا جائے گا کہ مظاہرین پر ڈنڈے برسانے والا کون تھا اور یہ خبر شاید حیران کن ہو۔ اس حیران کن خبر کا اب بھی انتظار ہے اور یہ بھی ابھی تک معلوم نہ ہو سکا کہ منہ ڈھانپ کر اسلام آباد سے مارچ میں شامل ہونیوالے وہ افراد کون تھے ۔سینئر صحافی و کالم نگار انصار عباسی نے اہم سوالات اٹھا دیئے۔جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں۔۔ بلوچستان میں مبینہ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آوازاُٹھانے کیلئے تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے والوں ،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ،سے جس طریقہ سے اسلام آباد پولیس نے رویہ رکھا، اُن پر ڈنڈے برسائے، اُنہیں گرفتار کیا ،یہ انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک امر ہے۔ جب احتجاج پر امن تھا تو پھر یہ زور زبردستی کیوں کی گئی؟ ۔ نگراں حکومت کے وزراء کی طرف سے کہا گیا کہ کچھ افراد منہ ڈھانپے اسلام آباد میں اس مارچ میں شریک ہوئے اور حکومت کے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں کہ کوئی گڑ بڑ ہو سکتی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ پولیس پر پتھراؤ مظاہرین کی طرف سے کیا گیا جس کے ردعمل میں گرفتاریاں کی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جلد ہی میڈیا کو یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ مظاہرین پر ڈنڈے برسانے والا کون تھا اور یہ خبر شاید حیران کن ہو۔ اس حیران کن خبر کا اب بھی انتظار ہے اور یہ بھی ابھی تک معلوم نہ ہو سکا کہ منہ ڈھانپ کر اسلام آباد سے مارچ میں شامل ہونیوالے وہ افراد کون تھے ۔انصار عباسی نے مزید لکھا کہ وفاقی وزراء نے تمام خواتین اور بچوں کی فوری رہائی کی نوید بھی سنائی لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بعد میں جو حقائق سامنے آتے رہے وہ وفاقی حکومت کے ذمہ داروں کے دعوؤں کے برعکس تھے۔ بلوچ مظاہرین پر پولیس ایکشن کے خلاف کئی اطراف سے سخت مذمت کی گئی، احتجاج بھی ہوئے جس کے بعد گرفتار کیے گئے مظاہرین کی رہائی اور لانگ مارچ کے شرکاء سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ آخر میں انصار عباسی نے لکھا کہ ۔ گمشدہ افراد کے معاملہ کا کوئی حل نکالنا چاہیے جس کیلئے ماضی میں سوچ بچار بھی ہوتی رہی لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ جو پر امن ہیں جو سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔ لیکن اگر پر امن احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا اور اُن پر تشدد اسلام آباد میں ہو گا تو پھر اس سے تو علیٰحدگی پسند دہشت گرد گروپس ہی فائدہ اُٹھائیں گے۔