تحریر: سید بدرسعید۔۔
ادارے ہمارے تحفظ کے لیے ہیں لیکن اب خوف کی علامت بن رہے ہیں ۔ تحقیقاتی صحافی احمد نورانی کی ویب سائٹ پر “بلاسفیمی بزنس گروپ” کے بارے میں ایک ایسی رپورٹ شائع ہوئی جس نے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اس رپورٹ میں الزام ہے کہ توہین مذہب کے کاروباری گروپ کے اراکین اور لاہور ، اسلام آباد، راولپنڈی میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگز ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں ۔ انہوں نے مختلف کیسز کے حوالے دیے کہ متاثرہ شخص کو پہلے نجی افراد نے اغوا کیا اور پھر اسے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگز کے دفتر لیجایا گیا جہاں باقاعدہ گرفتاری ڈالی گئی ۔مجھے اس پر اس لیے لکھنا پڑا کہ بے گناہ نوجوان ایسے گروہوں کا شکار نہ ہو جائیں ۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ واٹس ایپ گروپس میں پہلے تو توہین آمیز پوسٹ شیئر کی جاتی ہے ۔ جب کوئی ممبر ایڈمن کو اس کی شکایت کرتا ہے تو گروپ ایڈمن لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے وہ پوسٹ بھیجنے کا کہتی ہے ۔ نوجوان کاروائی کے لیے وہ پوسٹ ایڈمن کے نمبر پر فارورڈ کر دیتا ہے ۔ اب ایڈمن اس نوجوان سے رابطے میں آ جاتی ہے اور اسے ملازمت یا کسی اور بہانے اپنے دفتر بلاتی ہے ۔ نوجوان اس کے دفتر پہنچتا ہے تو ایڈمن خاتون کے ساتھ موجود افراد اسے اغوا کر لیتے ہیں ۔ اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا جاتا ہے ، ثبوت کے طور پر ایڈمن کو فارورڈ کی گئی وہی پوسٹ پیش کی جاتی ہے جو اس نے ایڈمن کے کہنے پر اصل بندے کے خلاف کاروائی کے لیے فارورڈ کی ہوتی ہے ۔ اس نوجوان کو ایف آئی اے کے دفتر لیجا کر باقاعدہ گرفتار کر لیا جاتا ہے اور شاید متعلقہ افسر اپنے حل شدہ کیسز کی فائل بھاری کر لیتا ہے
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے توہین مذہب کے الزام میں چار سو سے زیادہ نوجوانوں پر مقدمہ چلایا جن میں سے 70 فیصد نوجوان لڑکے لڑکیاں بیس سال یا اس سے بھی کم عمر ہیں ۔ سو فیصد متاثرین غریب یا لوئر مڈل کلاس سے ہیں اور 99.99 فیصد افراد مسلمان ہیں ۔ان میں سے 80 فیصد مقدمات 2022 کے بعد درج ہوئے ۔متاثرین میں سافٹ ویئر انجینئر ، سول الیکٹرک ، مکینیکل اور کیمیکل انجینئر ، ماسٹرزاور بیچلر ڈگری ہولڈر ہیں۔ یاد رہے ان الزامات کے تحت درج مقدمات میں زیادہ تر سزائے موت ہے ۔
مجھے توہین مذہب کے اس معاملہ کا تو علم نہیں لیکن دیگر معاملات میں ایف آئی اے کے طریقہ کار پر شدید تحفظات ہیں ۔خاص طور پر سائبر ونگ کے بعض افسران ملزمان کی بجائے “بکریوں” کو پکڑ کے جیب یا کیس کی فائل بھر رہے ہیں ۔ مجھے دو بار دو مختلف دوستوں کے ساتھ فیصل آباد اور گوجرنوالہ ایف آئی اے سائبر کرائم کے دفتر جانا پڑا ۔ پہلے کیس میں پراپرٹی کا کام کرنے والے ایک نوجوان کو نوٹس ملا اور اس کا بنک اکاؤنٹ منجمد کر دیا گیا ۔ اسے بتایا گیا کہ اس نے ایک اکاؤنٹ میں پیسے بھیجے ہیں جس پر منی لانڈرنگ کا شبہ ہے ۔ وہ فیصل آباد گیا اور بتایا کہ متعلقہ اکاؤنٹ کنسٹرکشن کمپنی کے نام پر ہے ۔ اس نے کام کروایا اور پیمنٹ کر دی ۔ جس شخص کا نام بتایا جا رہا ہے اسے تو وہ جانتا تک نہیں اور نہ ہی کمپنیز کے ڈائریکٹرز سے ملاقات ہوتی ہے اور یہ بات بھی دو سال پرانی ہے ۔ متعلقہ افسر کا کہنا تھا کہ ہمیں بل کی رسیدیں لا کر دو ۔اس نے کہا دفتر میں لکڑی کے کام کی رسیدیں کون دو دو سال سنبھالتا ہے ؟ بہرحال منی لانڈرنگ کیس میں پھنسنے سے بچنے کے لیے اس نے لاکھوں روپے دے کر جان چھڑاوائی ۔ ایک سال بعد ایک دوسرے افسر نے نوٹس بھیج دیا کہ اب یہ کیس میرے پاس ہے ، اس نے پہلی تفتیش کا کلیئرنس لیٹر دیا لیکن متعلقہ افسر نہ مانا الٹا ان تمام افراد کو نوٹس بھیج دیے جنہوں نے اس نوجوان کے بنک میں پیمنٹ کی تھی یا اس نے انہیں پیسے بھیجے تھے ۔ اندازہ لگائیں کہ ایک نوٹس اس کی کینسر کی شکار بہن کو بھی بھیجا گیا کیونکہ نوجوان اپنی بہن کو ماہانہ خرچہ بھیجتا تھا ۔ میں نے بھی ایک سوسائٹی کی فائل اسی شخص سے لی تھی لہذا ایک نوٹس مجھے بھی موصول ہوا ۔ میں اس کو ساتھ لے کر آفیسر سے ملا اور اسے دستاویز دکھائی کہ جناب یہ پراپرٹی خریدی ہے ۔ بہرحال معاملہ کلیئر ہوا لیکن ان چالیس پچاس نوٹسز نے اس بے گناہ نوجوان کا بزنس تباہ کر دیا۔ کلائنٹس نے ڈر کے مارے اس کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا ۔ دوسرے کیس میں ایزی پیسہ کے ایک دکاندار کو نوٹس ملا کہ دو سال پہلے فلاں شخص نے تمہاری دکان پر آ کر رقم نکلوائی ہے اس کا شناختی کارڈ دو ورنہ تم ملزم ہو لہذا آ کر ریکوری دو۔ اس سادہ سے دکاندار کو بھی تین چکر لگانے کے بعد جیب سے ریکوری کی رقم ادا کرنی پڑی ۔ اندازہ لگائیں کہ اصل ملزم گرفتار نہیں کیا گیا ۔ ایف آئی اے افسر کا کہنا تھا ملزمان کسی اور کے شناختی کارڈ پر سم نکلواتے ہیں اور آن لائن فراڈ کرتے ہیں اس لیے ان کا پتا نہیں چلتا لیکن ہم نے مدعی کو ریکوری کروا کے دینی ہے ۔ یہ ملبہ ان بے گناہ دکانداروں پر پڑتا ہے جو شکنجے میں آ جاتے ہیں ۔ فائلوں میں شاید کیس حل ہو رہے ہیں لیکن حقیقت میں ملزمان آذاد ہیں اور بے گناہ افراد کو مقدمات سے ڈرا کر پیسے لیے جا رہے ہیں ۔ اسی طرح ایف آئی اے کے پاس ایسا سسٹم نہیں کہ شہری سے اس کے شہر میں تفتیش ہو بلکہ جس شہر میں کیس ہو وہیں بلایا جاتا ہے ۔ آنے جانے کے لیے گاڑی، پٹرول دو تین دوست ، کھانا اور دیگر اخراجات کے ساتھ شہری کو ایک چکر دس پندرہ ہزار کا پڑتا ہے اور جب تک وہ پیسے نہ دے یہ چکر لگتے رہتے ہیں ۔ یہ ادارے ہمارے تحفظ کے لیے ہیں لیکن اب انہی سے خوف آنے لگا ہے ۔ لوگ ہمیشہ کے لیے ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ اس سسٹم کو بہتر بنائیں۔ قربانی کے بکرے تلاش کرنے کی بجائے اصل ملزمان کو پکڑیں ، سم کارڈ جاری کرنے والی موبائل کمپنیز کے خلاف کاروائیاں کریں۔ میرا اپنا یہ حال ہے کہ تین بار موبائل گم ہونے پر نئی سم نکلوائی ، ایک بار خاص طور پر جا کر بائیو میٹرک ویریفکیشن کروائی ، 2007 سے نمبر زیر استعمال ہے لیکن پھر بھی سم میرے نام پر نہیں ہے ۔ اب پھر گیا تو کہا گیا جس کے نام پر ہے اسے ساتھ لائیں ۔ میں نے کہا اسے کہاں سے ڈھونڈوں ، آپ کال ریکارڈ چیک کریں مجھ سے کالز کی ویریفکیشن کریں ، موبائل اور سم میرے پاس ہیں لیکن ان کی پالیسی نہیں تھی لہذا کوڈ کی تبدیلی کے ساتھ نئی سم خریدنی پڑی
ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ یہ ہمارے ادارے ہیں ۔ انہیں تحفظ کی علامت بنائیں ۔ توہیں مذہب کے شکار گھیرنے سے لے کر بے گناہ کاروباری افراد تک کو قربانی کا بکرا بنانے والے افسران کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ۔ علما کرام کو بھی اس معاملے میں آگے آنا چاہیے کہ کیا اس طرح کسی بے گناہ کو گھیر کر ملزم بنانا بذات خود توہین مذہب نہیں ؟ اگر واقعی ایسا ہے تو ملوث افراد پر توہین مذہب کا کیس درج ہونا چاہیے ۔
موجودہ حکومت تو خود اداروں کے ایسے استعمال کو بھگت چکی ہے ۔ نیب کی گرفتاریوں اور کئی کئی ماہ قید کاٹنے کے بعد بے گناہ ثابت ہونے والے سیاست دانوں کو تو اندازہ ہو گا کہ عام شہری کن مسائل کا شکار ہوتا ہے ۔یہ ںسسٹم ٹھیک نہ ہوا تو نوجوان ٹیلنٹ سے لے کر کاروباری افراد تک سب بیرون ملک چلے جائیں گے اور ہمارے پاس صرف بیوروکریسی رہ جائے گی ان میں سے بھی اکثر کے اہل خانہ دوہری شہریت کے حامل ہیں(بشکریہ روزنامہ نئی بات )۔۔