تحریر: حامد میر۔۔
مارشل لاء کس نے لگانا تھا؟ ظاہر ہے جنرل باجوہ نے لگانا تھا جن کی زبان سے میں نے مارشل لاء کی بات ایک د فعہ نہیں بار بار سنی۔ان کے دل کے کسی گوشے میں پانچ ہزار افراد کو لٹکانے کی ایک خواہش اکثر انگڑائیاں لیتی تھی۔یہ خواہش ان کی زبان پر تڑپتی لیکن پھر واپس دل میں جا کر سوجاتی۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ایک سیکورٹی ورکشاپ میں کئی گھنٹے تک انہوں نے خطا ب فرمایا ۔
یہاں بھی آغاز میں تو یہی کہا کہ فروری 2021ء میں فوج نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے کہا کہ پاکستان میں مارشل لاء لگانا بہت آسان ہے اور ہمارے پاس ہر وقت ان لوگوں کی فہرستیں تیار ہوتی ہیں جنہیں مار شل لاء لگانے کے بعد گرفتار کرنا ہوتا ہے ۔مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کبھی آپ کا نام ہماری فہرست میں شامل ہو جاتا ہے کبھی ڈراپ ہو جاتا ہے ۔اس دن انہوں نے میڈیا پر بہت غصہ جھاڑا اور کہا کہ جب بھی ہم کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے قریب پہنچتے ہیں آپ لوگ کشمیر فروشی کی باتیں کرنے لگتے ہیں ۔
یہ الزام بھی لگا دیا کہ آپ لوگ بھاری تنخواہیں لیتے ہیں اور ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ جنرل باجوہ تقریباً ہر ملاقات میں ہماری تنخواہوں پر ضرور گفتگو کرتے تھے اکثر انکی انفارمیشن غلط ہوتی، اس دن این ڈی یو میں نسیم زہرا نے انہیں چیلنج کر دیا اور کہا کہ آپ نے ٹیکس چوری کا الزام لگایا ہے تو اب ثبوت پیش کریں ورنہ اپنے الفاظ واپس لیں۔باجوہ صاحب نے نسیم زہرا کو دبانے کی کوشش کی لیکن جب اس جرات مند خاتون نے بھی بلند آواز میں آرمی چیف سے بار بار کہا کہ ثبوت کے ساتھ بات کریں تو پاکستان کے طاقتور ترین شخص نے بات بدل دی۔ حقیقت یہ ہے کہ سویلینز کی کمزوریاں سازشی جرنیلوں کی طاقت بنتی ہیں ۔نسیم زہرا کی کوئی کمزوری باجوہ کے پاس نہ تھی لہٰذا انہوں نے ایک منٹ میں باجوہ صاحب کو چپ کرا دیا۔اس دن باجوہ صاحب نے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ فوج بحیثیت ادارہ نیوٹرل ہو چکی ہے لیکن انہوں نے ذاتی حیثیت میں عمران خان کو سمجھانے کی کافی کوشش کی۔باجوہ صاحب ایک زمانے میں شہباز شریف کو بھی بہت سمجھایا بجھایا کرتے تھے۔
2018ء کے انتخابات سے قبل ایک دن جنرل باجوہ نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار اور ان کے نائب فیض حمید کی موجودگی میں شہباز شریف سے کہا کہ اگر آپ وزیر اعظم بن جائیں تو آپکی کابینہ میں کون کون شامل ہوگا؟شہباز شریف کو سمجھ آ گئی کہ میرے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت سے صلاح مشورے کے بعد ہی کابینہ بنے گی پھر انہیں کہا گیا کہ آپ کو اپنے بھائی نواز شریف کی سیاست سے دوری اختیار کرنا ہوگی ۔یہ وہ لمحہ تھا جب شہباز شریف ایک چھوٹی سی ہاں کہہ دیتے تو وزیر اعظم بن سکتے تھے لیکن انہوں نےتینوں جرنیلوں کو صاف بتا دیا کہ وہ ہمیشہ سے فوج کےساتھ مفاہمت کے حامی رہے ہیں لیکن وہ نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔
عرض یہ کرنا ہے کہ جنرل باجوہ ذاتی طور پر عمران خان کو وزیر اعظم نہیں بنانا چاہتے تھے لیکن شہباز شریف کے انکار کے بعد عمران خان ان کی مجبوری بن گئے ۔عمران خان نے باجوہ کے ساتھ چلنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔باجوہ نے کہا کہ اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر حفیظ شیخ کو لے آئو خان صاحب مان گئے ۔جب باجوہ صاحب نے کہا کہ عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹا دو تو خان صاحب نہیں مانے ۔ساری بات یہیں سے بگڑی، خان صاحب کا خیال تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے باجوہ صاحب ہیں ۔یہ ان کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی ۔تحریک عدم اعتماد کے ماسٹر مائنڈ آصف علی زرداری تھے جنہوں نے شہباز شریف کو اپنا امیدوار بنا کر خود باجوہ کو حیران کر دیا۔
باجوہ صاحب نے آخری وقت تک عمران خان کو بچانے کی کوشش کی یہاں تک کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما خالد مگسی کے پاس بھیجا اور ان سے کہا کہ آپ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑیں ۔لیکن باپ والے باجوہ صاحب کے بھی باپ نکلے ،خالد مگسی نے براہ راست باجوہ کے سامنے بیٹھ کر کہہ دیا کہ مارشل لاء لگانا ہے تو لگا دو ہم اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے۔جب شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے تو اس کے بعد باجوہ صاحب نے پرویز الٰہی کو ان کے خلاف استعمال کیا اور پھر چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ پر دبائو ڈالا کہ آپ یا تو نئے انتخابات کا اعلان کریں یا پھر استعفے دیں۔راجہ صاحب نے جس جگہ اور جس انداز میں انکار کیا اس پر تو پورا کالم لکھا جاسکتا ہے ۔انہیں بہاولپور سے بھی پیغامات آتے رہے کہ آپ نئے انتخابات کا راستہ ہموار کریں لیکن راجہ صاحب نے سب کو ’’بے فیض‘‘ کر دیا ۔بہت سے راز سامنے آنے والے ہیں بہت سے چہروں کا نقاب سرکنے والا ہے ۔(بشکریہ جنگ)۔۔