zardari keliye mushkilaat

باجوڑ دہشتگردی، مولانا ہی نشانے پر کیوں؟

تحریر: علی انس گھانگھرو۔۔
دس محرم الحرام یوم عاشور کا دن ہی گزارا کو 11 محرم الحرام کو باجوڑ میں کربلا برپا کردی گئی. اب تک 40 سے زائد بیگناہ معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے. سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے ہی، ہر وقت ہمیشہ ہی مولانا اور اس کی جماعت دہشتگردی کے نشانے پر کیوں رہتی ہے. ایک طرف ہر الزام اور تنقید برائے تنقید مولانا پر کی جاتی ہے دوسری طرف سب سے زیادہ جانی اور سیاسی نقصان بھی مولانا اور اس کی جماعت کو اٹھانا پڑتا ہے. آپ مولانا فضل الرحمن کو انتہا پسند سمجھیں یا دہشتگرد، مذہبی ملا سمجھیں، یا سیاسی مفاد پرست، آپ اس سیاست یا شخصیت سے لاکھ بار اختلاف رکھیں، لیکن ایک بات واضح ہے کہ مفتی محمود کا بیٹا مولانا فضل الرحمن اس وقت ملک میں سیاسی بصیرت رکھنے والے مدبر سیاستدان اور مذہبی رہنما صف اول کے لیڈر اور ملک کیلئے درد رکھنے والے صوفی منش عالم دین ہیں. مولانا نے ملک میں فرقہ واریت کی جڑیں اکھاڑنے کیلئے کوششیں کیں، مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ایم ایم اے کا اتحاد بنایا آج ملک میں مذہبی ہم آہنگی ہے اور امن امان کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ مولانا نے اس عمل کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے. آپ نے مذہبی طبقے کو بندوق، کلاشنکوف، بارود اٹھانے کے بجائے عدم تشدد کا درس دیا، پرامن رہنے پر زور دیا اور ملکی سسٹم کے تحت جمہوریت پر یقین رکھتے ہوئے ووٹ کی پرچی کا سہارا لیا. آپ کو اور جماعت جے یو آئی کے ممبران کو جان بوجھ کر ہرایا جاتا ہے. پارلیمنٹ سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. ملک میں نام نہاد دہشت گردی کے جنگ میں جب مشرف کی وجہ سے پاکستان کود پڑا تو اس وقت آپ نے ملک میں امن امان کے قیام کیلئے جدوجہد کی. آپ کے اوپر مسلسل 3 بار خودکش حملہ ہوئے، بم دھماکے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندگی دی، محفوظ رکھا، آپ نے جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کی آپ کے پر امن کراچی سے اسلام آباد تک آزادی مارچ اور 23 ملین مارچ اس بات کا ثبوت ہے،ل. آپ کے ساتھی علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو کو شہید کیا گیا، آپ پرامن رہے، کوئٹہ میں آپ کے قافلے پر دھماکے ہوئے، آپ کے گھر ڈیرہ اسماعیل خان پر مسلسل راکٹ لانچر مارے گئے تھے. آپ کے ساتھی مولانا حسن جان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا. کراچی میں جید علماء کرام مفتی نظام الدین شامزئی سمیت دیگر کو گولیوں سے موت کے گھاٹ اتارا گیا. بلوچستان میں آپ کے جماعت کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری پر دہشت گرد حملا کیا گیا، جس میں متعدد آپ کے جماعت کے کارکن شہید ہوئے. آپ کو ہمیشہ اقتدار میں رہنے کے طعنے دیے جاتے ہیں، آپ کو “ڈیزل ” کے نام سے گالی دے کر پکارا جاتا ہے. آپ پر کرپشن کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں مگر ثبوت پیش نہیں ہوتے. آپ کو اور آپ کی جماعت کو انتخابات، اقتدار، جمہوریت، امن سے دور رکھنے کی کوشش وہ سازش کی جاتی ہے مگر آپ ہمیشہ اصول، نظریہ، جدوجہد ووٹ کی پرچی سے اپنا مقدمہ لڑتے آرہے ہیں. باجوڑ میں جے یو آئی یورکرز کنونشن میں دہشت گرد حملے میں اب تک کے تفصیلات کے مطابق 40 سے زائد افراد عالم، کارکن شہید اور ایک سو سے زائد زخمی ہوگئے ہیں. مولانا صاحب ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیسے انتہا پسند ہیں کہ آپ اور آپ کی جماعت انتہاپسندی کا شکار ہو رہی ہے اور آپ خاموش ہیں. آپ کیسے دہشت گرد ہیں کہ آپ اور آپ کی جماعت کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آپ خاموش ہیں. مولانا صاحب آپ کیسے سیاستدان اور مذہبی رہنما ہیں کہ تین خودکش حملوں، بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات اور سینکڑوں علماء کرام کارکنوں کے جنازے اٹھانے کے باوجود اتنے پرامن ہوتے ہیں کہ ایک درخت کا پتا نہیں ٹوٹتا نہ کسی گاڑی کا شیشہ توڑا جاتا ہے. آپ کسیے لوگ ہو آج تک کسی قاتل کا، سہولتکار کا، دہشتگردی کرانے والے عناصر کا نام تک نہیں لیتے؟ آپ ہمیشہ نشانے پر ہیں، یہ کونسی قوتیں ہیں جو آپ جیسے مولوی کو برداشت نہیں کرتے، آپ کی جماعت تک کو برداشت نہیں کرتے، آپ کی پرامن تحریک سیاست کو برداشت نہیں کرتے اور آپ زبان سے آف تک نہیں کہتے، ایک دو دن کی مذمت اور احتجاج کے بعد دہشت گردی ہضم ہو جاتی ہے؟ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا.؟؟ کب تک لاشیں اٹھاتے رہو گے؟ کب تک جنازے اٹھا تے رہو گے، کب تک مدارس مساجد میں لاشیں اٹھاتے رہو گے؟ کبھی مسجدوں پر ڈرون حملوں میں سینکڑوں معصوم بچے شہید ہوتے ہیں تو کبھی جلسوں میں سینکڑوں لاشیں ملتی ہیں! یہ دہشتگردی، یہ قتل و غارت یہ لاٹھی گولی، بم، بندوق کی زبان آخر کب تک جاری رہے گی؟؟۔۔(علی انس گھانگھرو )۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں