تحریر: محمد بلال غوری۔۔
بجلی کے بلوں پر لوگ ایک بار پھر بلبلا رہے ہیں اور اشرافیہ کا خیال ہے کہ انہیں کوئی لالی پوپ دے کر باآسانی منتشر کردیا جائے گا۔طاقتور اشرافیہ کی توقع ہرگز غیر حقیقی نہیںکیونکہ جس طرح پرانے زمانے میں بادشاہ حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانےکیلئےاکھاڑوں میں خوفناک جانوروںسے انسانوں کی کشتی کرایا کرتے تھے ،اسی طرح آجکل انہیں سیاسی آقائوں اور مذہبی پیشوائوں کی نورا کشتی میں اُلجھا دیا جاتا ہے۔جس نوجوان کے پاس بیمار باپ کا علاج کروانےکیلئے پیسے نہیں ہوتے ،وہ سوشل میڈیا پر اپنی پارٹی کا بیانیہ بنانے میں مصروف رہتا ہے۔کوئی ووٹ کو عزت دو کے سراب کا تعاقب کرتا رہتا ہے تو کسی کو حقیقی آزادی کی فکر کھائے جاتی ہے۔کسی کو یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ نوازشریف کب اور کیسے واپس آئیں گے تو کوئی اس سوچ میں ڈوبا رہتا ہے کہ عمران خان کب جیل سے رہا ہوں گے۔آپ ہی بتائیے کبھی کسی نے اپنا بجلی کا بل باریک بینی سے دیکھ کر یہ سمجھنے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ حکومت بجلی کےبل کے ساتھ کتنے ٹیکس وصول کر رہی ہے اور اس کی کیا توجیہہ ہے؟ضیاالحق کو بیٹھے بٹھائے خیال آیا کہ کیوں نہ تعلیم کیلئے سرکاری خزانے سے کچھ خرچ کرنے کے بجائے یہ رقم عوام کی رگوں سے نچوڑی جائے چنانچہ اقرا سرچارج لگادیا گیا اور 1985ء سے 1995ء تک اس مد میں 65ارب روپے وصول کیے گئے۔ یہ رقم کدھر گئی ؟اس پر حاصل ہونے والا منافع کہاں خرچ ہوا؟کسی کو کچھ معلوم نہیں۔مظفر آبادسے 42کلومیٹر دور نیلم جہلم ہائیڈوپاور پروجیکٹ بنانے کا فیصلہ ہوا تو طے کیا گیا کہ اس کی رقم بھی صارفین سے وصول کی جائے ۔10پیسے فی یونٹ نیلم جہلم سرچارج وصول کیا جانے لگا۔مارچ 2023ء میں پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پاور ڈویژن کی سالانہ آڈٹ رپورٹ پیش ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس مد میں سالانہ 9ارب روپے اکٹھے کئے جانے تھے مگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے مقررہ حد سے زیادہ رقم جمع کرلی ۔فیصلہ ہوا کہ اضافی رقم صارفین کو واپس کی جائے مگر اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
مفت بجلی کی عیاشی کس کس کو دستیاب ہے اور کس طرح یہ سالانہ 10ارب روپے خسارے کا سبب بن رہی ہے اس کی تفصیل 24جولائی 2023ء کو’’برق گرتی ہے تو بے چارے بے سروسامانوں ‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں بیان کرچکا ہوں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ واپڈا کا عملہ (اگرچہ تکنیکی اعتبار سے یہ الیکٹرک ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے اہلکار ہیں مگر عام آدمی کو سمجھانے کیلئے واپڈا کی اصطلاح ہی استعمال کی جاتی ہے)نہ صرف خو د مفت بجلی استعمال کرتا ہے بلکہ بجلی چوری کرنیوالوں کی سہولت کاری کرکے مزید خسارے کا سبب بنتا ہے۔فروری 2023ء میں قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا گیاکہ2022-23ء کے دوران 380ارب روپے کی بجلی چرائی گئی اور اگلے سال بجلی چوری سے ہونے والا نقصان 520ارب روپے تک پہنچ جائیگا۔صرف ایک گرڈ اسٹیشن بنوں سے 5ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔بجلی چوری کا مطلب ہے کہ یا توعملہ چوروں کے ساتھ ملا ہوا ہے یا پھر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا۔ دونوں صورتوں میں اس کا خمیازہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین اور افسروں کو بھگتنا چاہئے لیکن کسی نابغہ روزگار شخصیت نے تجویز دی کہ بجلی چوری کے سبب پاور ڈویژن کو 2.6ٹریلین روپوں کے گردشی قرضوں کا سامنا ہے،یہ بوجھ صارفین پر منتقل کردیا جائے چنانچہ اب بلوں میں فنانسنگ کاسٹ سرچارج(FC-SUR)کے نام پر جو بھتہ وصول کیا جارہا ہے اس کا سبب یہی ہے۔پی ٹی وی خسارے میں جارہا تھا تو اس کی فیس بجلی کے بلوں میں شامل کردی گئی ،اب ریڈیو کو چلانےکیلئے بھی بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ہرجانہ اداکرنا ہوگا۔
ایک اور ظلم فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر کیا جارہا ہے۔اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ بازار سے جوتا خریدنے جائیں اور دکاندار کہے ،بھائی صاحب وہ جو تین مہینے پہلے آپ 1200روپے کی چپل لے گئے تھے ناں ،اس پر 450روپے مزید بنتے ہیں آپ کی طرف کیونکہ جون میں پیٹرول کے نرخ بڑھ گئے تھے تو اس پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 200روپے بڑھ گیاخریدار خود کو بمشکل سنبھالتے ہوئے پوچھتا ہے ،چلیں 200روپے قیمت بڑھ گئی تو آپ 450روپے کیوں مانگ رہے ہیں ؟ دکاندار ہنستے ہوئے بتاتاہے کہ ان 200روپوں پر جنرل سیلز ٹیکس ،ایکسائز ڈیوٹی اور ودہولڈنگ ٹیکس بھی تو دینا ہے۔کیا دنیا میں کہیں ایسی لوٹ مار ہوسکتی ہے؟مگر بجلی صارفین یہ سب برسہا برس سے برداشت کر رہے ہیں۔ایف بی آرکے مطابق تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ برس ایکسپوٹرز اور ریٹیلرز کے مقابلے میں 200فیصد زیادہ ٹیکس دیا ۔تنخواہ دار طبقے نے 2022-23ء میں 264.3ارب روپے انکم ٹیکس دیا جو 2021-22ء کے مقابلے میں 75ارب یعنی 40فیصد زیادہ ہے۔یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کرنے کے بعد بجلی کے بلوں میں انکم ٹیکس ،جنرل سیلز ٹیکس ،ایکسائز ڈیوٹی سمیت متعدد ٹیکس وصول کئے جائیں۔جب بھی احتجاج ہوتا ہے حکومت حاتم طائی بن کر کہتی ہے ہم کم یونٹ استعمال کرنے والوں کو سبسڈی دینگے۔ آپ اپنی خیرات اپنے پاس رکھیں ۔عوام کو نہ تو سستی بجلی چاہئے ناںسبسڈی ،بس یہ جو ٹیکسوں کے نام پر اپنی عیاشیوں کا خراج وصول کیا جارہا ہے،یہ بند کر دیں ۔ ورنہ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔گویا :
لہو پہ قرض ہوتی جارہی ہے
بغاوت فرض ہوتی جارہی ہے۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔