تحریر: رضا علی عابدی
بدن کی بولی کی خوبی یہی ہے کہ یہ فطری ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ اس پر انسان کا بس چلے، پھر بھی یہ بولنے والے کی گفتگو کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ ہم کسی کی تقریر سننے جاتے ہیں تو نہیں چاہتے کہ ہم سے آگے بیٹھے ہوئے شخص کی ٹوپی کی وجہ سے تقریر کرنے والا ہماری نگاہوں سے اوجھل رہے۔ ہم جیسے بھی بنے،بولنے والے کو دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا ترکی کے شہر استنبول میں اردو زبان کے تعلق سے ایک عالمی کانفرنس ہورہی تھی۔ اس میں کچھ ترک اسکالر بھی تقریر کرنے والے تھے۔ دوسر ے ملکوں سے آئے ہوئے مندوبین سے بڑی ہی معذرت کے انداز میں کہا گیا کہ یہ تقریریں ترکی زبان میں ہوں گی، اس پر سارے ہی غیرملکی مندوبوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، ہمیں باڈی لیگویج سے اندازہ ہو جائے گا۔ ویسے بھی یار کی زبان ہے، ہمیں آتی ہو یا نہ آتی ہو، کچھ اشارے کنایے تو ساری بات کھول دیتے ہیں۔
میں نے جب بی بی سی میں شرکت اختیار کی اور میری تربیت شروع ہوئی تو جو بے شمار کام کی باتیں بتائی گئیں ان میں ایک یہ تھی کہ جب مائیکرفون پر بولو تو اپنے ہاتھو ں کو اسی طرح حرکت دیتے رہو جیسے عام بات چیت کے دوران دیتے ہو۔ ہم نے پوچھا کہ وہ کیوں بھلا؟ بتایا گیا کہ بولنے کا فطری انداز سب سے زیادہ دل کش ہوتا ہے۔ آپ ہاتھ باندھ کر بولیں گے تو لگے گا آپ سے کوئی جرم سرزد ہورہا ہے۔میں نے یہ بات گرہ سے باندھ لی۔ کچھ عرصے بعد ٹیلی وژن کے لئے میرا انٹرویو ریکارڈ ہوا۔ میں نے دیکھا۔ پتہ چلا کہ میں کم، میرے ہاتھ زیادہ بول رہے تھے۔کچھ بھی ہو، دیکھنے والوں نے یہ انداز پسند کیا۔سچ تو یہ ہے کہ یہ بدن کی خاموش بولی کتنی ہی چپ ہو، گفتگو کا حصہ ہوتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب تھانہ کچہری میں جو بیانات ریکارڈ کئے جاتے تھے اس میں صرف آواز ہوا کرتی تھی جسے آڈیو ریکارڈنگ کہتے ہیں، لیکن اب سارے بیانات کی وڈیو ریکارڈنگ ہوتی ہے، یعنی متحرک تصویروں کے ساتھ۔ اصول یہ ہے کہ ثبوت ہوں تو ناقابل تردید ہوں ورنہ عدالت انہیں نہیں مانتی۔صرف سپاٹ آواز کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آخری بات یہ کہ بدن کی بولی کا سمجھنا ایک پوری سائنس ہے، ایک علم ہے، بالکل اس طرح جیسے نفسیات ایک علم ہے جس کو حاصل کرنا آسان نہیں۔یہ بات اپنے سیاست دانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ بولتے ہیں اور بعض ایک تو بہت بولتے ہیں۔ انہیں احساس نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ ان کی حرکات و سکنات بھی بول رہی ہوتی ہیں، وہ کتنا ہی جھوٹ بولیں، باڈی لینگویج چغلی کھائے جاتی ہے اور سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ اس کے چہرے پر کیا لکھا ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔