تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب کچھ بچے بغیر عقل داڑھ کے پیدا ہوں گے۔ جس کی وجہ ارتقا کا عمل ہے۔ آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے انسان میں روپذیر ہونے والی مختلف ارتقائی تبدیلیوں کا انکشاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی کلائی میں اضافی نس اور انسانی چہرے میں بھی تبدیلیاں آئیں گی کیوں کaہ جبڑے کمزور ہوجائیں گے۔ ایڈیلیڈ کی فلنڈرز یونی ورسٹی کی ڈاکٹر ٹیگھن لوکاس کا کہنا ہے کہ انسانی چہرے اب خوراک میں تبدیلی کے باعث چھوٹے ہوجائیں گے۔ جب کہ چھوٹے جبڑوں کا مطلب ہے کہ دانتوں کے لیے جگہ کم ہوجائے گی۔
دنیا کے سینکڑوں ممالک سے ایک عجیب خبر آئی ہے جس نے خود سائنسدانوں کو بھی حیران کردیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ کرہِ ارض پر انسانوں کے گرنے، چوٹ لگنے، دیرینہ معذوری اور اموات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ قرار دی گئی ہے کہ جدید طرزِ حیات کا اثر ہمارے جسمانی توازن پر ہورہا ہے اور گرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا جس میں چھوٹوں اور بڑوں کی کوئی تفریق نہیں تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ہم اس رحجان کو ختم کرسکتے ہیں۔گرنے، چوٹ لگنے، معذوری اور اموات کے یہ واقعات محض کھڑا ہونے اور چلنے کے دوران بھی پیش آئے ہیں۔ عالمی سطح پر ٹریفک حادثات کے بعد ہمارے گرنے کا عمل ہلاکت کی دوسری بڑی وجہ بن چکا ہے۔ اس ضمن میں برٹش میڈیکل جرنل نے ایک بہت بڑا سروے کیا ہے جس میں 195 ممالک میں گرنے، چوٹ لگنے، جزوی یا مکمل معذوری اور اموات کا جائزہ لیا گیا ہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ سال 1990 سے 2017 کے درمیان عالمی سطح پر گرنے سے سنگین نتائج کی شرح دگنی ہوچکی ہے جو ایک تشویشناک امر ہے۔ اس عمل میں گرنے کے بعد زندگی کے بے کار ہوجانے والے سال، معذوری کے سال اور دیگر پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق گرنے سے چوٹ لگنے کے سب سے زیادہ واقعات میں کولہے، گھٹنے اور ٹخنوں کی چوٹ کے واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں۔تاہم ماہرین نے جوانوں اور نوجوانوں میں نشے، الکحل، موبائل فون کے استعمال اور تیزروی کو گرنے کے حادثات کا ذمے دار بھی قرار دیا ہے۔ تاہم 60 سال سے زائد افراد میں گرنے کے بعد معذوری اور موت کا خطرہ سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن کہانی یہاں بھی ختم نہیں ہوتی کہ ایسے 80 فیصد واقعات غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں رونما ہورہے ہیں۔ ان ممالک کی بڑی آبادی تیزی سے بوڑھی ہورہی ہے جہاں گرنے کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہر سال ساڑھے چھ لاکھ سے زائدافرادگرنے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب تین کروڑ ستر لاکھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ان میں بچوں کی تعداد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔لیکن سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ اس کی دماغی اور اکتسابی وجہ بھی ہے۔ ہمارے استحکام کی کمی میں خود دماغ اور جسم کا کمزور ہوتا ہوا امتزاج بھی شامل ہے۔ اسی طرح جذباتی اور نفسیاتی طور پر ہم بہت تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ ان کی تہہ میں پہنچ کر ہم بہت حد تک اس عالمگیر مسئلے کی شدت کم کرسکتے ہیں۔اسی بنا پر ماہرین نے دماغی ورزشوں، یوگا، چہل قدمی اور جاگنگ پر بھی زور دیا ہے۔
برطانیہ میں اشرافیہ کے رشتے کرانے اور ڈیٹنگ ایجنسی چلانے والی خاتون نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے امراکے روئیے میں ایک حیران کن تبدیلی آنے کا انکشاف کر دیا ہے۔برطانوی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق اس خاتون کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے امرانے پارٹنرز اور ان کے ساتھ تعلق کو انتہائی اہمیت دینی شروع کر دی ہے۔اولیویا کا کہنا تھا کہ ’’لاک ڈاؤن کے دوران حالانکہ میں نے اپنی 6ماہ کی فیس بڑھا کر 20ہزار پاؤنڈ کر دی ہے، اس کے باوجود میرے کلائنٹس کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کو لاک ڈاؤن میں تنہارہنے کے دوران پارٹنرز کے متعلق سنجیدگی سے سوچنے کا موقع ملا۔ایسے میں گرانڈ پرکس اور دیگر ایسے لگژری ایونٹس بھی منسوخ ہو گئے جن میں امرامرددوخواتین روبرو ملاقات کیا کرتے تھے۔ اس کا بھی ان امیر لوگوں پر اثر پڑا اور انہوں نے پارٹنر کی تلاش شروع کر دی۔ جن لوگوں کے پاس پہلے سے پارٹنر موجود تھے انہوں نے اپنے رشتے کو مضبوط اورتعلق کو بہتر بنانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔نارمل زندگی میں یہ لوگ بہت مصروف رہتے تھے اور ان کے پاس شریک حیات کے متعلق سوچنے کا وقت ہی نہیں ہوتا تھا۔ خواب سچے ہوتے ہیں یا جھوٹے، اس پر بہت لے دے ہوتی رہتی ہے لیکن اب سائنسدانوں نے خوابوں کے متعلق ایک ایسا حیران کن دعویٰ کر دیا ہے کہ سن کر یقین کرنا مشکل ہو جائے۔نئی تحقیق کے نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ ہم لوگ ہر رات اوسطاً ساڑھے 6گھنٹے خواب دیکھتے ہیں اور ان خوابوں کا مقصد اپنی الجھی گتھیاں سلجھانا اور حتیٰ کہ مستقبل کو دیکھنا ہوتا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی رکن مینڈی نکولسن کا کہنا تھا کہ ’’خواب ہماری زندگی بدل سکتے ہیں۔ ہم خواب میں اپنی مشکلات حل کر سکتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کر سکتے ہیں۔‘‘ اس تحقیق میں امریکی سائنسدانوں نے سینکڑوں لوگوں کو آنے والے خواب اور ان کی زندگی کے حالات و واقعات کا تجزیہ کرکے نتائج مرتب کیے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور ہارورڈ میڈیکل سکول کے پروفیسر رابرٹ سٹک گولڈ کا کہنا ہے کہ ’’ہمار ا’سونے والا دماغ‘ ان مسائل پر غوروفکر کرنے کی کمال صلاحیت رکھتا ہے جو ہمیں جاگتے ہوئے درپیش آتے ہیں۔ خواب میں ہم روزمرہ میں پیش آنے والے واقعات بھی دیکھتے ہیں اور ہم سب سے زیادہ اسی قسم کے خواب دیکھتے ہیں تاہم ہمیں کچھ خواب ایسے بھی آتے ہیں جن میں ہم مستقبل کے واقعات بھی دیکھتے ہیں جو ابھی ہماری زندگیوں میں ہونا ہوتے ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ٹیکنالوجی ایڈوانس ہونے سے ایک فائدہ ہوا کہ اب آدمی جب فری ہوتا ہے تو ٹی وی لگا لیتا ہے یا موبائل چلا لیتا ہے پہلے تو ناک میں انگلی ڈال ڈال کر ناک ہی زخمی کر دیتا تھا۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔