nakafi hein lafazian

بد تہذیبی کی کوئی حد؟

تحریر: شکیل بازغ۔۔

ہو کیا رہا ہے۔ ہم میڈیا والے کر کیا رہے ہیں؟ کیا ہمیں ادراک ہے کہ ہمارا کام کس قدر حساس نوعیت کا ہے۔ کیا ہم یہ بات بھول چکے کہ ہمارا کام عوام کی ذہن سازی کرنا ہے۔ یہی تبلیغ کہلاتی ہے۔ ابلاغ کے اہم ترین ہم لوگ عوام کے ذہنوں میں کیا ٹھونس رہے ہیں۔ انکی سمت اگر ہم متعین کر رہے ہیں تو کیا کر رہے ہیں۔ ہمارا کام پوری قوم کی ذہنی تربیت کرنا ہے۔ اپنی ثقافت اپنی ویلیو کو اجاگر کرنا ہے۔  ہمارا کانٹینٹ کس نوعیت کا ہے۔ مانا کہ میڈیا مالکان سرمایہ دار ہیں۔ وہ مالی مفادات کے تحت کانٹینٹ پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ تو کیا ہم بحیثیت پاکستانی بحیثیت مسلمان مالکان کو بہترین مذہبی و ملکی اہمیت اجاگر کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؟ کیا ہم ایک فیصد بھی روایات سے ہٹ کر بات کرنے کا حوصلہ یا ظرف رکھتے ہیں۔ چلیں اس سے آگے بڑھ کر کیا ہم قوم کو مہذب بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں؟

ٹی وی سکرین کا خبرنامہ زیادہ تر سیاست کے بھیٹ چڑھ جاتا ہے۔ کیا دنیا میں صرف سیاست ہی خبر ہے۔ ہم کر کیا رہے ہیں۔ فلاں سیاستدان نے فلاں کو یہ کہہ دیا جواب میں اس نے یوں کہہ دیا۔ برائی کو روکنے کا ایک حل یہ ہے کہ برائی کو کم دکھایا جائے۔ یہاں ایک کومل کے ریپ کو اتنا نمایاں کیا گیا کہ اس کے بعد پے در پے ایسے انسانیت سوز قتل کا سلسلہ چل نکلا۔ اب کوئی بھی ایسا واقعہ ظلم کی شکار کوئی بھی کومل پہلی کومل کی طرح خبروں میں وہ اہمیت نہیں پارہی۔ اسکا مطلب جرم کے خلاف احساس کی شدت کم کردی گئی اور یہ ہم نے ہی کیا ہے۔ خبر جو غیر اہم ہے اور اسکا تعلق ملکی سیاست سے ہے  کسی وزیر کا کرکٹ بیٹ پکڑ کر دو گیندیں کھیل لینا زیادہ اہم ہے تو رن ڈاون میں اسکی اہمیت فلسطین میں صیہونیوں کی گولہ باری کے نتیجے میں شہید ہونے والے پچاسیوں مسلمان کی شہادت سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ میڈیا ہی عوام کی ترجیحات کو طے کرتا ہے۔ عوام ایسے بُدھو ہیں جو میڈیا کہے گا اسی کو حرف آخر سمجھ لیتے ہیں۔فیس بُک سے لیکر چوکوں چوراہوں۔ پر منہ سے کھاگ اگلتے دانشوڑ میڈیا سے تاثر لیکر کانسپریٹر و تھنک ٹینک بن کر لوگوں کے ذہنوں کو بنجر کر رہے ہیں۔ ٹی وی سکرین پر دی گئی خبر میں چھپی حقیقت اس بین السطور کے پیچھے کارفرما سازش کی تہہ تل پہنچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی۔ ایک غلط بات دو لوگو۔ سے سُن کر اسے حتمی مان کر اسکی وکالت کردینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ اس دماغ کے عوام کو میڈیا جو بتائے گا عوام وہی مان لیں گے کیونکہ تاثر عمومی یہی ہے کہ میڈیا غلط تو نہیں کہتا۔ میڈیا نے علاقائی ثقافت کو عالمی صیہونی ثقافت کے زیر لانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ ہم اٹھانوے فیصد مسلمانوں کی سرزمین کو یہ سکھا رہے ہیں کہ ہندووں نے کمال طریقے سے پوجا پاٹ کی۔ ہولی کے رنگوں کو قومی رنگ پر غالب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لبرل ازم اور کیا ہے۔ لادینیت اور کیا ہے؟

میڈیا غیر اہم بات کو لال پیلے پھٹوں کیساتھ شمشیری آواز میں اینکرز چیخ چیخ کر عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈال رہے ہیں کہ یہ بات شدید اہم ہے۔ اور اسے اہم مانا جائے۔ اینکر کا قصور نہیں اسے کہا جاتا ہے کہ اسے ایسے ہی پڑھا جائے۔ ہم خدا جانے کسے فالو کر رہے ہیں۔ کس طرف جارہے ہیں کیا کررہے ہیں۔ ہمارے شہید اور ہلاک، شریف و بدمعاش، ظالم و مظلوم خود تراشیدہ ہیں۔ ہم ایسے کیوں ہیں۔؟ چند ایسے ہیں جنہیں اپنی مٹی اپنی روایات اور ثقافت سے پیار ہے لیکن اکثریت زر خرید غلام۔

یہ طوفان کہیں تھمے گا؟ مجھے کوئی بتائے اس بد تہذیبی کی کوئی حد ہے؟(شکیل بازغ)۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں