تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،بچپن سب کا ہی اچھا ہوتا ہے یا اچھا لگتا ہے۔آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، جب بھی آپ سے بچپن سے متعلق کوئی سوال کیا جائے گا تو آپ ماضی کی حسیں یادوں میں پل بھر کے لیے کھوجائیں گے۔ ہمارے ساتھ ایسا ہرگز نہیں۔ بچپن کی یادیں ہمارے نزدیک کار کا ’’بیک ویومرر‘‘ ہے اور حال کی مثال ’’ونڈ اسکرین ‘‘ والی ہے۔جس طرح ڈرائیونگ کے دوران آپ کو پیچھے دیکھنے کے لیے کار میں ایک چھوٹا سا شیشہ دیاجاتا ہے اور سامنے دیکھنے کے لیے ایک بڑی اسکرین ہوتی ہے، اسی طرح بچپن کی یادیں ہوتی ہیں، جب آپ اپنے ماضی میں جھانکیں گے تو آپ کی گاڑی کو حادثے کا خدشہ بہرحال موجود رہے گا، آپ کے لیے سامنے دیکھتے رہنے میں ہی عافیت ہے۔کیوں کہ جو گزرگیا اسے بھول جا۔۔شاعرنے کیاخوب کہاتھا، یادماضی عذاب ہے یارب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔۔ ہمیں یاد ہے جب ہم چھوٹے سے تھے تو دودھ آج کل کی طرح شاپرز میں نہیں ملتا تھا، گھر سے برتن لے جانا پڑتا تھا، دہی کے لیے بھی برتن گھر سے لے جانا پڑتا تھا۔ ہوٹل سے کوئی سالن لینا ہو تو تب بھی گھر سے اسٹیل کی چھوٹی بالٹی یا چھوٹا ڈول ٹائپ برتن والدہ محترمہ ساتھ دیا کرتی تھیں۔۔یہی حساب روٹیوں کا تھا، تندور سے روٹی لینے جاتے تو ساتھ میں دسترخوان یا کوئی کپڑا لازمی لے جاناہوناتھا۔۔گھرکے لیے سودا سلف لانے یا سبزی ترکاری لانے کے لیے بھی کپڑے کے تھیلے یا ٹوکری ہوتی تھی۔۔محلہ داروں کے گھر حتی کہ ایک ہی گھر کے مختلف پورشنز میں رہنے افراد ایک دوسرے کو کھانا بھیجتے تھے تو خوان کو خوان پوش سے ڈھک دیا کرتے تھے۔ اب نام لو تو پہلے خوان پوش کا ہی مطلب سمجھانا پڑے گا۔مسجد میں روزانہ امام صاحب کے لیے نمازعصر کے بعد کھانا بھی اسی طرح ڈھک کر بھیجاجاتا تھا۔ گھر میں چونکہ لائٹ نہیں تھی اس لیے رات کا کھانا مغرب کی نماز کے بعد سب کھالیا کرتے تھے۔ ۔ہمارے چاچا کراچی کے ٹاپ کے وکیلوں میں شمار ہوتے تھے، لیبر لاء کے ایکسپرٹ تھے، اس زمانے میں جب کہ اہل محلہ کے پاس سائیکل تک نہیں ہوتی تھی، ہمارے چاچا نے کار خرید لی، کہیں سے آتے یا جاتے تھے تو چاچا گلی میں شور نہیں مچانے دیتے تھے خاص طور پر رات کو گاڑی سے اترنے سے پہلے ہی تاکید کر دی جاتی تھی کہ گاڑی کا دروازہ بالکل آرام سے بند کرنا اس میں دو لاجکس بیان کی جاتی تھیں کہ ایک تو کسی کی نیند خراب نہ ہو دوسرا ہر طرح کی نظر سے محفوظ رہیں۔ بچپن سے ہی گھر میں غربت دیکھی، میٹرک میں تھے تو کلاس فیلوز پانچ روپے، دس روپے سے کم پاکٹ منی نہیں لاتے تھے، اس وقت بھی گھر سے صرف آٹھ آنے ملتے تھے، کورنگی دو سے کورنگی چار نمبر تک اسکول روزانہ پیدل آناجانا ہوتا تھا۔ ساتھ میں انگریزی میڈیم اسکول کی درجنوں کتابیں اور کاپیوں کا بوجھ الگ سے بستے کی شکل میں کمر پر لدا ہوتا تھا۔۔عید پر جوتے بھی ایسے خریدے جاتے تھے جو بعد میں اسکول میں کام آسکیں۔۔ پھر آہستہ آہستہ جب غربت میں کمی آنے لگی تو مڈل کلاسیئے ہوگئے۔ ۔یعنی ایک ہی تولیہ سارے گھر والوں کے لیے، اسی سے نہانے کے بعد خود کو خشک کرنا ہے، تو ہاتھ منہ دھونے کے بعد بھی اسی تولیئے نے کام میں آنا ہے۔۔اسکول کے سوئیٹرز یا جرسیاں چھوٹی ہوجاتی تھیں تو وہ ایک اور چھوٹے بہن یا بھائی کے کام آتی تھی، اس سے بھی چھوٹی ہوگئی تو پھر گھر کا پوچا بنایاجاتا تھا۔۔غربت تھی تو نائیلون کے صابن سے نہاتے تھے، پھر جب کچھ حالات میں بہتری آئی تو لال والے صابن کو استعمال کرنے لگے۔ پھر جب شیمپو آیا تو شیمپو کی بوتل کو اس وقت تک استعمال کرتے ہیں کہ اس میں جیسا پانی ڈالو ویسا نکلے۔ ۔گھر میں کوئلے والی استری ہوتی تھی، کیوں کہ لائٹ نہیں تھی، لیکن استری بھی اس وقت ہوتی تھی جب کسی تقریب میں جانا ہو،ورنہ نہاکر کپڑے پہن لیتے تھے ،کپڑے خود ہی استری ہوجاتے تھے۔ بچپن سے ہی ٹی وی کا شوق تھا، بعد میں یہی ٹی وی روزگار کا باعث بھی بنا، ہمارے شوق کو دیکھتے ہوئے اباحضور’’رشین ٹی وی‘‘ گھر میں لے آئے، جسے ’’وال والا ٹی وی‘‘ بھی کہاجاتا تھا، رات آٹھ بجے پی ٹی وی پر ڈرامہ روزانہ آتا تھا،لیکن ٹی وی ہمیں سات چالیس پر لازمی کھولنا ہوتا تھا، کیوں کہ رشین ٹی وی ’’گرم‘‘ ہونے میں پندرہ سے بیس منٹ لیتا تھا،ڈرامہ شروع ہوتے ہی ٹی وی بھی فعال ہوجاتا تھا اور ہم خیریت سے پورا ڈرامہ دیکھ لیتے تھے۔ ہمارا تعلق جس طبقے سے ہے وہاں کنگھی یا کنگھے کے بھی دندے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ زیراستعمال رہتی ہے۔۔رات کی بچی ہوئی روٹیاں صبح تل کر چائے کے ساتھ دی جاتی تھیں۔ پنکھے کی یہ حالت ہوتی تھی کہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر چلانا پڑتا تھا جس کے بعد وہ ’’غنودگی‘‘ کے عالم میں کمرے میں چلتا رہتا تھا۔غربت کا یہ عالم تھا کہ نئے کپڑے عام طور پر گھر میں پہننے نہیں دیئے جاتے تھے، یہ کپڑے ہمیشہ کسی تقریب کے لیے ہوتے تھے۔آج بھی ہماری نفسیات میں یہ بات شامل ہوچکی ہے جب کبھی سال دو سال میں اکٹھے چار پانچ پینٹس اور شرٹس خریدتے ہیں تو اسے اگلے ہی روز سے پہننا شروع نہیں کردیتے، کسی تقریب کا انتظار کرتے ہیں،اس کے بعد وہ نئے کپڑے ’’نارمل‘‘ کپڑوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔پورے گھر کا ایک ہی صابن، پورے گھر کے لیے ایک ہی نیل کٹر، پورے گھر کے لیے ایک ہی کنگھی۔۔ عیاشی کی تو گنجائش ہی نہیں تھی۔۔ پھر فریج آیاتوجان میں جان آئی کہ چلو اب کچھ اچھا ہوجائے گا، لیکن جس محلے میں تھے وہاں کسی اور گھر میں فریج نہیں تھا اس لیے پورے محلے کی برف ہمارے گھر سے جاتی تھی۔ اماں الگ آئس کریم کے خالی ڈبے میں آٹا گوندھ کر رکھ دیتی تھیں اور ہمیں ترساتی تھیں، حافظ سوہن حلوے کے ڈبے میں دھاگے کی نلکیاں،بٹن اور دیگر سلائی کا سامان رکھاجاتا تھا۔شیمپو کی بوتل خالی ہوجاتی تھی تو اس میں سرسوں یا ناریل کا تیل رکھاجاتا تھا۔صوفوں پر گندی چادریں ڈال کر رکھی جاتی تھیں تاکہ وہ خراب نہ ہوجائیں۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے، ہر بچہ زمین پر خدا کی رحمت ہوتا ہے لہذا اسے جتنا ہوسکے پیار،محبت اور شفقت کے ساتھ پالنا چاہیئے، بچپن زندگی کا اہم حصہ ہے اور ہرایک کویہ یاد رکھنا چاہیئے، اس لیے ہمیں اپنے بچوں کا بچپن ایسا خوشگوار بناناچاہیئے کہ بڑے ہوکروہ ان حسین یادوں کو جب بھی یاد کریں تو کبھی انہیں ان یادوں کی وجہ سے افسوس یا دکھ نہ ہو۔جس طرح ہم اپنے بچپن پر رنجیدہ ہیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔