تحریر۔حمادرضا
ہر سال بیس نومبر کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کی بنیاد انیس سو چون میں رکھی گئ تھی بنیادی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم صحت اور تفریح کے حوالے سے شعور بیدار کیا جاۓ اس دن کو ہر سال مختلف عنوانات کے تحت منایا جاتا ہے اگر پاکستان میں بچوں کے حوالے سے بات کی جاۓ تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں بچوں کی تعداد اسی ملینّ سے بھی زیادہ ہے جس میں سے صرف بیس فیصد بچوں کو اپنے بنیادی حقوق میسرّ ہیں یہ بھی وہ بچے ہیں جو شہروں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ چوبیس فیصد بچوں کی آبادی سطح غربت سے بھی نیچے اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہے یہ بچوں کی وہ تعداد ہے جو زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں رہائش پذیر ہے پاکستان میں اگر مجموعی طور پر بچوں کے حقوق کے حوالے سے بات کریں تو ملکی آب و ہوا کوئ بچوں کے حقوق کے حوالے سے زیادہ موزوں نہیں رہی ہے لا تعداد حکومتی دعوؤں کے باوجود عملی طور پر بچوں کے لیے کچھ کیا نہیں جا سکا آج بھی چائلڈ لیبر چائلڈ ٹریفکنگ ملک کے بنیادی مسائل میں شامل ہیں پاکستان میں بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اسکول نہیں جاتی جو لگ بھگ تیس ملین کے قریب بتائ جاتی ہے پاکستان میں ساٹھ فیصد بچے صرف اسکول کی مار سے دلبرداشتہ ہو کر پڑھائ سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیتے ہیں ملک میں فروغ پاتے جدید رواج کے مطابق بچے کو اب تین سے چار برس کی عمر میں ہی اسکول بھجوا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچہ اپنے بچپن سے صیح طریقے سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا جب کہ اس کے بر عکس دنیا کے جدید ممالک کے قانون کے مطابق بچے کو اسکول بھیجنے کی کم سے کم عمر چھ سال بعض ممالک میں یہ عمر سات سال اور امریکہ کی کچھ ریاستوں میں تو یہ عمر آٹھ سال تک ہے پاکستان میں اگر صوبہ سندھ کی بات کی جاۓ تو سندھ بچوں کی نا خواندگی کے حوالے سے سب سے پیچھے ہے اس کے علاوہ سندھ کو بچوں کے حوالے سے دوسرے نا پسندیدہ رواجوں نے برے طریقے سے گھیر رکھا ہے جس میں کم عمری کی شادی اور ونی کی رسم زیادہ قابلِ فکر ہیں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ دو خاندانوں کی باہمی چپقلش یا خونی تنازعات کو حل کرنے کے لیے کم عمر کی بچیوں کو کسی بھی بڑی عمر کے مرد کے ساتھ رخصت کر دیا جاتا ہے جو آج کے اس دور میں ہماری معاشرتی اقدار پر سوالیہ نشان ہے پاکستان میں بچوں کو جسمانی صحت کے حوالے سے بھی شدید خطرات لا حق ہیں ملکِ عزیز میں ہر چھ میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے ہر روز پاکستان میں تقریباً ایک ہزار سے زیادہ بچے ڈائریا کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں حالیہ چند سالوں میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں بھی بڑھوتری دیکھنے میں آئ ہے جو کسی بھی المیےّ سے کم نہیں ہے ایک این جی او کی سال دو ہزار اٹھارہ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں بچوں سے زیادتی کے کل تین ہزار آٹھ سو بتیس واقعات پیش آۓ جو گزشتہ سال کی نسبت گیارہ فیصد زیادہ ہیں سچ تو یہ ہے کہ بچوں کے مسائل حل کرنے میں ہم بری طرح سے نا کام ہو چکے ہیں بسوں میں چھلیاں بیچتے بچے اور ہوٹلوں کے کم عمر بیرے ہماری اشرافیہ اور حکومت کا منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں اس دن کی مناسبت سے تقریبات کا انعقاد کرنے کی بجاۓ جب تک عملی طور پر اقدامات نا کیے گیے تو ان مسائل کو حل کرنا ناممکن ہوگا تعلیم سب سے بڑا اور مؤثر ہتھیار ہے جس کو استعمال کر کے مسائل کی اس دھند سے باہر نکلا جا سکتا ہے لیکن تعلیم کے لیے بجٹ آٹے میں نمک کے برابر رکھا جاتا ہے جسے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے صاحبِ استطاعت لوگوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اگر کوئ بھی شخص کسی ایک بچے کے تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری قبول کر لے تو یہ اس کا معاشرتی اصلاح کے لیے بہت بڑا حصہ ہو گا مغرب میں بہت سی اداکارؤں اور مشہور شخصیات نے غریب بچوں کو گود لیا اور ان کے اخراجات کی ذمہ داریاں اٹھائیں ہمیں بھی اسی قسم کی مثالوں کی تقلید کی ضرورت ہے آج کے بچے کل کا مستقبل ہیں اور ہمیں اس کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کرنے ہوں گے۔(حماد رضا)۔۔