تحریر: عبدالرحیم شریف۔۔
غالبا بھٹوکازمانہ تھا۔سیاسی حالات کی طرح معاشی حالات بھی اچھے نہ تھے۔سیاسی جھگڑے،نفرتیںاورعصبیت کی بومعاشرے میں رچی بسی تھی۔میں ان دنوں کراچی کی ایک فیکٹری سائٹ میں لومے چلاتا تھا۔ پندہواڑی ملتی تھی۔تنخواہ معمولی اورزندگی بھی معمولی تھی۔میں یہا ں بندہ پردیسی اور چھڑا ،دیہاڑی وقت پر نہ ملتی تو ہاتھ خالی رہ جاتا،اس وقت ضروریات اورخواہشات محدود تھی۔بس پیٹ کے ساتھ خرچہ گھر بھیجنے کی فکر رہتی تھی۔ مجھے یاد ہے وہ تنخواہ ملنے کا دن تھا۔جیب خالی اورہاتھ تنگ تھے۔لیکن پتہ نہیں کیا ہوا،اس روز مجھے پندہواڑی نہیں ملی،میں رات کا کھانا کوارٹرز کے قریب خان کے ہوٹل میں کھاتا تھا۔میرے ساتھ عمل خان بھی ہوتا ،ہمارا معمول تھا کہ ایک دن میں پیسے ادا کرتا اور دوسرے روزعمل خان کی باری ہوتی۔ اس روز میں فیکٹری سے تھکاماندہ کوارٹرزپہنچا،بھوک کی شدت تھی۔اس خیال سے ہوٹل پہنچ گیا کہ عمل خان ہوگا،کھانا اس کے ساتھ کھالوں گا اور کہہ دوں گا آج وہ پیسے ادا کردے!۔میں ایک ٹیبل پر بیٹھ گیا ،پھر ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل پر،بھوک انتظار اورامید کے ساتھ کافی دیرہوگئی۔عمل خان کونہ آنا تھا نہ آیا۔مجھے پہچان کر بیرا آگیا،لیکن آرڈر دینے کی ہمت نہ ہوئی کہ ہاتھ پھیلانے کی عادت نہ تھی۔خیراُس رات میں بھوکا سوگیا،صبح ہوئی،عمل خان سے ملاقات ہوئی ،اس نے پوچھا رات کھانا کھالیا تھا؟؟۔بتایا پیسے نہیں ملے تھے۔اس لیے بھوکا سوگیاتھا۔عمل خان مجھ پر سخت برہم ہوا؛ بولا، تم کیسے آدمی ہو!ڈیرے پرآجاتے،روٹی کا بول دیتے،ہوٹل والے سے کہہ دیتے ،عمل خان ہوٹل پہنچا تو بیرے کو بھی ڈانٹ پلائی کہ” خورشید آیاتھا،تونے اسے روٹی کا نہیں پوچھا“،میں نے عمل کا کندھا دبایااوربولا قصور میراتھا۔میں نے اس سے روٹی مانگی ہی نہیں،وقت گزرتا گیا،اوراسی طرح مزدور کے شب روز بھی۔۔۔۔
پھر ایسا ہوا کہ ایک روز یہ مزدور جماعت اسلامی میں شامل ہوگیا،اورلوگوں نے دیکھا کہ جو خورشید بھوکا سوجاتا اورکسی سے مانگتا نہیں تھا۔اب وہ در در کا منگتا بن گیا تھا۔کبھی کشمیر کے لیے فند،کبھی فلسطین کا چندہ ،کبھی سیلاب متاثرین کے لیے جھولی پھیلانا۔بابا خورشید بتانے لگے ، لوگ کہتے تھے کہ؛ جو خورشید مرجانا پسند کرتااورہاتھ پھیلانے پرراضی نہ تھا ،اب بازاروں میں جھولی پھیلاتا ہے۔وہ خود پرہنس رہے تھے اوراپنی کہانی سنارہے تھے۔
کہنے لگے۔قریبا 40سال پرانی بات ہوگی۔ جماعت نے ایک اسکیم نکالی تھی،جس کا نام تھا۔” آٹا مٹھی اسکیم“ نوجوانوں کی ٹیم کے ساتھ وہ نکلتے،ہاتھ میں ایک کنستر ہوتا،اورہر گھر سے ایک ایک مٹھی آٹامانگتے،کنستر جب بھرجاتا تو اسے کسی ایک غریب مستحق کے گھر دے آتے،ان کے پاس مستحقین کی لسٹ ہوتی تھی۔وہ ترتیب کے ساتھ آٹے کا کنستر پہنچایا کرتے تھے۔ کہنے لگے اب وقت بدل گیا ہے۔آٹے کے کنسترکا یہ سفر بڑے بڑے اسپتال،آغوش سینٹرز، میگاروشن پراجیکٹ اورسستی تندور تک پہنچ چکا ہے۔
کرونا نے خورشید صاحب کو ماضی کے کئی واقعات کی یاد تازہ کردی تھی۔دہائیاں گزرگئیں،ملک میںبھوک ،افلاس ،اورغربت آج بھی ویسے ہی ہے۔سیاسی حالات بھی کچھ مختلف نہیں ،دوسری طرف لاک ڈاﺅن کا کوڑ اہے جو ان جیسے سفید پوشوں پر بری طرح برس رہا ہے جو دوسرے کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ مزدورخورشید، اب باباخورشید بن چکے ہیں۔
لاک ڈاﺅ ن دوسرے ماہ میں داخل ہوچکاہے۔خورشید بابا کا کام بند ہے، کرائے کی دکان بھی تاحال بند پڑی ہے ۔اورنگی ٹاﺅن کی ہریانہ کالونی کا یہ بابا خورشید ،انتہائی ملنسار خوش اخلاق،ایماندار اورخود داری کا مجسم ہے۔ان کا کام بند ہے،لیکن خدمت کا سفر جاری ہے۔ان کا خیا ل ہے کہ معاشی بدحالی یوں ہی جاری رہی تو لوگ ایک دوسرے کو لوٹنے لگیں گے۔لیکن مجھے لوٹ مار کی نہیں بابا خورشید جیسے ہزاروں اورلاکھوں خود داروں کی فکر ہے۔جو کبھی ہاتھ نہیں پھیلاتے، بھوکا سوجاتے ہیں۔جن کے لیے خودداری کا بھرم قائم رکھنا اب ناممکن ہو گیا ہے۔ مجھے ٹھیک اندازہ نہیں کہ بابا خورشید کے گھر کے حالات کیسے ہیں؟۔اورمجھے اس بات کا بھی علم نہیں کہ ان کی تنظیم کو اس بے لوث کارکن کے گھر کی خبر ہے بھی یانہیں ۔لیکن بابا خورشید جیسے لوگ ہیرا ہیں۔ معاشرے کے لیے سرمایہ وافتخار ہیں۔اوران لوگوں اورحکومت کے لیے سبق اورتازیانہ ہیں جو بے جا ،ہروقت ہردرپرہاتھ پھیلانے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔(عبدالرحیم شریف)۔۔