تحریر: شکیل بازغ
ایک سی وی ملا اس میں لکھا تھا
“I will leave no stone unturned.”
یہ اینکرنگ کیلئے موصول ہوا ایک سی وی کے کور لیٹر میں تھا۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
مجھے آج تک یاد ہے اور میں یہ واقعہ آج بھی اپنے سٹوڈنٹس کو سناتا ہوں
دنیا۔نیوز میں تھا تو کوئی تہوار تھا۔ اینکرز زیادہ تر چھُٹی پر تھے۔ اسامہ غازی نے رات دس بجے فری ہوجانا تھا اپنی شفٹ شروع ہونے کے ایک گھنٹے بعد سے لیکر سات گھنٹے اکیلے مسلسل نیوز کرتے رہے۔ اگلا اینکر لیٹ ہوگیا مجھے اس اینکر نے کال کیا کہ مال پر بری طرح ٹریفک جام ہے kindlyاسامہ سے اگلی ہیڈلائنز یابلٹین کرالیں۔ میں سٹوڈیو میں گیا اسامہ سے لجاتے شرماتے کہا کہ اسامہ بھائی اگلا اینکر ابھی نہیں پہنچا۔ توآپ ہی اسکی جگہ کرلیں۔ اسامہ نے فوراً کہا کہ یار شکیل آپ اتنا ہچکچا کیوں رہے ہیں۔ دیکھیں مجھے ادارے نے آٹھ گھنٹے کام کرنے کی تنخواہ پر رکھا ہے۔ ایک گھنٹہ زیادہ بھی ہوجائے تو کوئی بات نہیں۔میرا فرض ہے کہ آپ مجھ سے آٹھ گھنٹے مسلسل کام لیں۔ یہ توآپکی مہربانی ہے کہ آپ عام دنوں میں مجھ سے رعایت برتتے ہیں لہٰذا زیادہ شرمائیں نہیں ٹھوک بجا کر حکم لگایا کریں۔۔۔۔
ایسے لوگ بھی ہیں جو نوکری کو حلال کرنا ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں
انسان ناشکرا ایسا کہ الامان الحفیظ۔ اینکر بننے کیلئے لوگ جان مال عزت تک کی اہمیت بھول جاتے ہیں۔ ایک کریز ہوتا ہے اسکرین پر نظر آنے کا۔ تاکہ خاندان بھر میں ہیرو ہیروئن کہلائے جائیں لوگ ہماری مثالیں دیں اور ہم کامیابی کیلئے نصیحتیں کرتے پھریں۔ عملاً ہوتا اس سے مختلف ہے. جب بطور اینکر کسی چینل نے آن ایئر کردیا تو پھر وہی ناشکری۔ چونکہ منزل پالی لہٰذا اب کام کے ساتھ ناانصافی شروع۔ پلیز مجھ سے خبریں کم کرانا۔ میری جگہ standby فلاں کو بٹھا دیں۔ میں مسلسل دو گھنٹے کیوں بیٹھوں۔ مجھے گاڑی لینے نہیں آئی میرا بلٹین میں IN ہونا مشکل ہے۔ مجھے وائس اوور نہیں کرنا۔۔ کسی اور سے کرا لیں پلیز۔ اگر فلاں اینکر نے نہیں کیا تو میں ایسا کیوں کروں۔ مجھے ادارہ جتنی تنخواہ دیتا ہے اتنا ہی کام کرنا ہے۔ جیسے الفاظ اور behavior دیکھ کر بہت غصہ آتا ہے۔ یہ اینکرز کا عمومی رویہ ہے۔ جب ہم اپنا موازنہ کسی سے کرتے ہیں تو دراصل ہم خود کو اسکی سطح پر کھینچ کر اپنی توہین کرتے ہیں۔
لیکن جو اللہ کی اس عطا سے انصاف نہیں کرتے وہ اسامہ غازی کے مرتبے پرکبھی نہیں پہنچ سکتے۔ بہت ضروری ہے کہ جس کام کے پیسے ملیں اسے حتی الامکان دیانتدار اور دل جمعی سے پورا کریں۔ میں جانتا ہو۔ لاکھوں لوگ ہیں جو تڑپ رہے ہیں کہ کسی طرح سکرین پر خبریں پڑھتے دکھائی دیںں اللہ نے موقع دے دیا تب قدر کھودینا۔ سی وی میں وہ وہ دعوے لکھے جاتے ہیں کہ پڑھ کر لگتا ہے یہ حد درجے کا محنتی اور نیک نیت امیدوار ہے۔ لیکن بعد میں نہ پڑھنے کی زحمت کی جاتی ہے اور نہ اپنی غلطیوں کو درست کرنیکی. کوشش۔۔ بس جو پرامپٹر پر لکھا پڑھ پُڑھ جاو کُتا لکھا کُتا پڑھ دیا۔ بِلا لکھا بِلا پڑھ ڈالا۔۔ جان چھڑاو۔۔ ایسوں کی اپنی پہچان۔نہیں بن۔پاتی اور وہ سالہا سال کی اینکرنگ کے بعد بھی ” کیا تفصیلات ہیں ” سے بہتر سوال نہیں کرسکتے۔۔۔۔
مجموعی طور پر ہم سب کا ایسا رویہ ہے۔نوکری نہ ملے تو ہم کچھ اور ہوتے ہیں مل جائے تو ہڈ حرام۔۔۔
افسوس ایسے رویوں پر۔۔(شکیل بازغ)