baatein sultan raahi ki

باتیں سلطان راہی کی۔۔

تحریر: ایم اسلم کھوکھر۔۔

یادش بخیر ! ماضی کی ایک پنجابی فلم ’’چاچا جی‘‘ کی عکس بندی ہو رہی تھی اس فلم میں چاچا جی کا مرکزی کردار عوامی اداکار علاؤالدین نے ادا کیا تھا جب کہ ہیرو کے کردار کے لیے پنجابی فلموں کے دلیپ کمار کا خطاب پانے والے آصف خان المعروف اکمل خان نے ادا کیا تھا۔ اس فلم میں ایک ثانوی کردار سلطان راہی بھی ادا کر رہے تھے۔یہ کردار فردوس بیگم کے فلمی باپ کا کردار تھا۔ چنانچہ اکمل خان نے اداکار سلطان راہی کو کردار نگاری کرتے ہوئے دیکھا تو اکمل خان نے بے ساختہ کہا کہ’’ یہ لڑکا آنے والے وقتوں میں بہت بڑا اداکار ثابت ہوگا‘‘ شاید وہ وقت قبولیت کا وقت تھا یا سلطان راہی کا نصیب کہ قسمت کی دیوی سلطان راہی پر یوں مہربان ہوئی کہ فلموں میں ایکسٹرا کے کردار کرنے والا یا ثانوی کردار کرنے والا سلطان راہی کا ستارہ روز روشن کی طرح چمکنے لگا۔یہ ضرور ہے کہ سلطان راہی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ایک ایکسٹرا کے طور پر کیا تھا۔ سلطان راہی کی اولین فلم ’’حاتم طائی‘‘ تھی مگر سلطان راہی لگن کا سچا تھا۔

اس نے ایسے کردار بھی کیے کہ فقط ایک لاٹھی تھامے کھڑے ہیں جب کہ بولنے کے لیے پوری فلم میں ایک مکالمہ تک نہیں دیا گیا تھا ، البتہ فلم ’’سہیلی‘‘ جوکہ عظیم ہدایت کار ایس ایم یوسف کی تخلیق تھی میں سلطان راہی نے ایک وکیل کا کردار کیا تھا جب کہ شباب کیرانوی کی ایک فلم ’’انسانیت‘‘ میں ایک کینسر کے مریض کا کردار بھی بخوبی ادا کیا تھا۔اس فلم کے مرکزی کردار وحید مراد، طارق عزیز و زیبا بیگم نے ادا کیے تھے۔ البتہ اس قسم کے کردار سلطان راہی کے لیے کوئی زیادہ فائدہ مند ثابت نہ ہوسکے البتہ فلم ’’امام دین گوولہ‘‘ میں ایک آزادی پسند سنگھ کا کردار بھی ادا کیا تھا۔یہ بھی ایک ثانوی کردار تھا البتہ اقبال کشمیری کی ایک فلم ’’بابل‘‘ میں ایک شریف بدمعاش قسم کا ایک سائیڈ کردار تھا جوکہ سلطان راہی کی شناخت بنا۔ اس فلم کے مرکزی کردار یوسف خان و رانی بیگم تھے۔

بہرکیف فلم ’’بشیرا ‘‘ ایک ایسی فلم تھی کہ جس نے سلطان راہی کو پاکستان فلم انڈسٹری کا سلطان بنا دیا۔ فلم ’’بشیرا‘‘ کا کردار اداکار ساون کے لیے لکھا گیا تھا ، یہ ساون کے عروج کا دور تھا ، مگر فلم کے معاوضے پر بات بن نہ سکی اور اس فلم کے ہدایت کار اسلم ڈار نے بشیرا کے مرکزی کردار کے لیے سلطان راہی کا انتخاب کیا۔

البتہ سلطان راہی نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا اور یہ فلم سلطان راہی کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی ممکن ہے اگر فلم ’’بشیرا‘‘ کا مرکزی کردار ساون کرتے تو اس قدر خوبی سے نہ کرپاتے فلم میں اداکار حبیب و روزینہ نے بھی ہیرو ہیروئن کے کردار ادا کیے جب کہ عالیہ بیگم نے سلطان راہی کی بہن کا اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سلطان راہی کی پہچان ایک ولن کے طور پر بن چکی تھی۔چنانچہ دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ، ٹھاہ واردات، خان چاچا ، انسان اک تماشا، ظلم کدی نہیں پھلدا ، آن ، رنگیلا ، خونی وغیرہ۔ یہ عوامی دور حکومت تھا جب ہدایت کار اسلم ایرانی نے سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے لائسنس پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔اس فلم کا موضوع انتہائی حساس تھا کہ قانون ایک خاتون کو تانگہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا البتہ کلب میں رقص کرنے کا اس خاتون کو لائسنس جاری کردیتے ہیں۔ ہدایت کار اسلم ایرانی کا اقدام ایک رسک تھا ، کیونکہ فلم پابندی کا شکار بھی ہوسکتی تھی۔ فلم لائسنس ریلیز ہوئی اور کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئی۔

اسی دور میں سلطان راہی کی ایک اور فلم ریلیز ہوئی اور اس فلم نے پاکستانی فلموں کا انداز ہی بدل دیا۔ یہ فلم تھی ’’وحشی جٹ‘‘۔ یہ فلم نامور فلمی مصنف ناصر ادیب کی بھی اولین فلم تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار حسن عسکری صاحب تھے۔یہ فلم بھی ایک افسانے ’’گنڈاسہ‘‘ سے ماخوذ تھی۔ اس فلم میں مرکزی کردار سلطان راہی نے ادا کیا تھا اور کردار کی ضرورت کے مطابق خوب کیا تھا۔ اس فلم میں سلطان راہی اپنے قتل ہونے والے فلمی باپ اجمل خان کا بدلہ لیتا ہے اور یہاں سے دو برادریوں، جٹوں و ملکوں کے درمیان دشمنی کا آغاز ہوتا ہے اور یہ سلسلہ فلم کے ختم ہونے تک جاری رہتا ہے پرتشدد واقعات سے بھرپور اس فلم نے کامیابی ضرور حاصل کی تھی ، اس فلم کے بعد پاکستانی فلموں میں تشدد کا عنصر غالب آ چکا تھا۔ البتہ اس فلم کے بعد گویا آنے والا دور سلطان راہی کا دور تھا۔

اب سلطان راہی پنجابی فلموں کی ضرورت بن چکا تھا اور اب آنے والے 20 سال سلطان راہی و ناصر ادیب کے تھے۔ چنانچہ 1978 کی ایک اور فلم ’’مولا جٹ‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ فلم ’’وحشی جٹ‘‘ کا پارٹ ٹو تھی۔ یہ ایک سدا بہار فلم ہے۔

یہ فلم جب بھی سینما گھروں میں ریلیز ہوتی ہے تو نئی فلموں سے زیادہ بزنس کرتی ہے جب کہ ’’مولا جٹ‘‘ سیریلز کی آخری فلم ’’مولاجٹ ان لندن‘‘ تیار ہوئی یہ فلم ’’مولا جٹ‘‘ پارٹ تھری تھی۔ یہ فلم کامیاب ترین فلم تھی۔

ان دونوں فلموں کے ہدایت کار یونس ملک تھے ، اگرچہ مولا جٹ کی ہدایت کاری کے لیے کیفی صاحب کا انتخاب کیا گیا تھا مگر کیفی صاحب نے اپنی مصروفیات کے باعث معذرت کرلی تھی اگرچہ سلطان راہی کا تعلق ایک اردو بولنے والے خاندان سے تھا اور یہ خاندان قیام پاکستان کے وقت اترپردیش کے شہر سہارنپور سے نقل مکانی کرکے راولپنڈی سے 28 کلومیٹر کی مسافت پر آباد شہر ٹیکسلا میں آ کر آباد ہو گیا ، مگر سلطان راہی اردو فلموں میں کردار نگاری کرنے کے باوجود پنجابی فلموں کا ہی اداکار کہلایا۔

ان کی اردو فلموں میں حاتم طائی، سہیلی، خاندان، آگ کا دریا، باغی، ناچے ناگن باجے بین، انسانیت، مقدر کا سکندر، ان داتا، سن آف ان داتا، سادھو اور شیطان، جینے کی سزا، آخری چٹان، رنگیلا، راستے کا پتھر، مجرم کون، سخی لٹیرا، آگ، زلزلہ، عورت راج، انسانیت کے دشمن، دل لگی، عبداللہ دی گریٹ اور ان کی ذاتی پروڈکشن میں تیار ہونے والی فلم تقدیر کہاں لے آئی وغیرہ شامل ہیں۔ سلطان راہی کے ایک بھائی عمران راہی بھی قسمت آزمانے آئے مگر کامیاب نہ ہو سکے اور ایکسٹرا ہی کے کردار کرتے رہے۔

جب کہ سلطان راہی کے ایک بیٹے بابر سلطان نے چائلڈ اسٹار کے طور پر چند فلموں میں کام کیا جن میں بابل صدقے تیرے اور باغی تے فرنگی قابل ذکر ہیں جب کہ دوسرے بیٹے حیدر سلطان نے بطور ہیرو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اب تک فلم انڈسٹری سے منسلک ہیں۔

شہرہ آفاق فلم’’ مولا جٹ‘‘ کی ہوبہو فلم کاپی فلم لیجنڈ مولاجٹ کے نام سے ریلیز ہوئی ہے اور فقط نام کی وجہ سے ایک کامیاب فلم قرار پائی ہے۔ یوں ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ سلطان راہی کا فنی فیض آج بھی جاری ہے۔آج عصر حاضر کے اداکار بشمول شان شاہد کے سلطان راہی کے انداز میں اداکاری کرکے اپنا فنی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ ان کے اپنے بیٹے حیدر سلطان نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلم مولاجٹ کا ری میک بنائیں گے۔

سلطان راہی نے قریب قریب سات سو فلموں میں کام کیا تھا۔ ان کی جوڑی مصطفی قریشی کے ساتھ بے حد کامیاب تھی جیسے ماضی میں اکمل خان و مظہر شاہ کی جوڑی کامیابی کی ضمانت تھی۔ سلطان راہی کے ساتھ جن ہیروئنوں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے ان میں نغمہ عالیہ، نجمہ، سلمیٰ آغا، روزینہ، صائمہ، سدرہ خان، گوری، زمرد، شبنم، نمو، نادرہ، نازلی، نیلو، دردانہ رحمان، سنگیتا، کویتا، بابرہ شریف، نیلی وغیرہ۔ ان کے علاوہ سلطان راہی کی جوڑی آسیہ اور انجمن کے ساتھ خوب پسند کی گئی اور سلطان راہی کی جوڑی بھی کامیاب ترین جوڑی قرار پائی جب کہ ان دونوں کے علاوہ ممتاز کو بھی سلطان راہی کے ساتھ پسند کیا گیا۔

موت ایک کھلی حقیقت ہے جس سے انحراف ممکن نہیں۔ چنانچہ سلطان راہی بھی5 اور 6 جنوری 1996 کی درمیانی شب اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور آ رہے تھے تو گوجرانوالہ شہر کے علی پور بائی پاس کے مقام پر چند شر پسندوں کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔

وفات کے کوئی چار روز بعد انھیں سپرد خاک کیا گیا تو نماز جنازہ میں شریک لوگوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ نماز جنازہ میں وہ لوگ بھی شریک تھے اور دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے جن کی سلطان راہی خفیہ طریقے سے مدد کیا کرتے تھے۔(بشکریہ ایکسپریس)

ارشدشریف تصاویر لیک، پیمرا سے رجوع کرنے کا فیصلہ۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں