تحریر: رضا علی عابدی۔۔
پچھلے دنوں ثریا شہاب کا ذکر نکلا۔ لوگ انہیں بھول چکے تھے۔ ثریا میری دانست میں اردو کی بہترین نیوز کاسٹرز میں شمار ہوتی تھیں۔ وہ نو عمری ہی سے ریڈیو سے وابستہ ہوئیں اور جب تک صحت نے ساتھ نبھایا، وہ اپنے ملائم لیکن پُر اعتماد لہجے میں خبریں پڑھتی رہیں۔ اس پر کسی نے تبصرہ کیا کہ ماضی کے خبریں پڑھنے والے صدا کار ہر لحاظ سے بہتر ہوا کرتے تھے، آج کے نیوز کاسٹر اُس پائے کے نہیں(ہمارے رفیق کار عارف وقار نے نیوز کاسٹر کا ترجمہ ’خبر خواں‘ کیا تھا)۔کہنے کو یہ ایک فقرے کا تبصرہ تھا لیکن سب نے سوچا تو احساس ہوا کہ بات ایسی غلط بھی نہیں۔ سبھی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اب ماضی جیسے بلیٹن سننے میں نہیں آتے۔ نہ ویسی آوازیں رہی ہیں نہ ویسے لب و لہجے۔
میری رائے مختلف ہے۔ میر ا خیال ہے کہ نشریاتی اداروں میں دس منٹ کے بلیٹن کو وہ حیثیت اور اہمیت نصیب نہیں جو ہونا چاہئے۔ باقی سارے وقت جو دھما چوکڑی جاری رہتی ہے، خبر نامے کامزاج بھی ویسا ہی بن کر رہ گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ خبر نامہ ہر طرح کے دریاؤں کے بیچ نسبتاًابھرا ہوا ایسا جزیرہ ہوتا ہے جس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ اس کی تشریح کرنے کی ِضرورت نہیں۔ اب تو خبروں کے ساتھ لوگ گانے بھی بجا دیتے ہیں، مضحکہ خیز آوازیں بھی نکالتے ہیں اور لوگوں کے کارٹون بھی چلا دیتے ہیں۔ یہ تو خیرنہایت قابلِ مذمت فعل ہے۔ میرا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ خبر نامے کا کُل رویہ بدل کر رہ گیا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ یہ ادا پڑوسی ملک کی نشر گاہوں سے آئی ہے۔ اب یہ ہو رہا ہے کہ خبروں کا لہجہ ہی بدل رہا ہے۔ اب خبریں مہذب اور شائستہ لہجے میں نہیں پڑھی جاتیں،اب خبریں پڑھی ہی نہیں جاتیں،ا ب خبروں کی سرخیاں پڑھی جاتی ہیں اور وہ بھی کسی ڈھنڈھورچی کے لہجے میں ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ مکمل جملوں پر مشتمل خبریں پڑھی جائیں، یہ لوگ اب اخباری سرخیوں کے انداز میں ادھورے فقروں سے کام چلانے لگے ہیں۔ مثلاً میں اس خبر کو اس طرح پڑھوں گا کہ عراق کے دارالحکومت بغدا د کے مرکزی بازار میں دھماکہ ہوا ہے۔ ایک تازہ اطلاع کے مطابق بارہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ہمارے نیوز کاسٹر اسے یوں پڑھیں گے اور وہ بھی بلند آواز میں:بغداد میں دھماکہ ۔ بارہ افراد ہلاک۔چلئے الّا الّا خیر صلّا۔ شروع میں سرخیاں پڑھ دی جائیں آدھی ادھوری سہی مگر فوراً بعد میں جب مفصل خبریں شرو ع ہوں تو صحیح معنوں میں تفصیل سے پیش کی جانی چاہئیں، شور مچاتی سرخیوں کے لہجے میں نہیں۔اسی طرح لفظوں کی ادائیگی اور تلفظ پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ کتابچے کی کلاسیکی غلطی تو کتابوں میں لکھی جائے گی۔ لیکن بہت سے روز مرہ بولے جانے والے لفظوں، خاص طور پر غیر زبانوں اور غیر ملکی ناموں کی صحت کی خاطر محنت تو کرنی پڑے گی۔ اب بدنصیبی سے ایک عمدہ روایت خاک میں ملا دی گئی۔ اداروں میں زبان اور تلفظ پر نظر رکھنے والا ایک شخص ہوا کرتا تھا جو لینگویج سپروائزر کہلاتا تھا۔ چونکہ پڑھا لکھا ہوتا تھا،اس کا احترام کیا جاتا تھا۔ اب تو یہ صورت حال ہے کہ کسی کو کیا پڑی ہے۔ جس کی جو سمجھ میں آرہا ہے، کر رہا ہے۔میں پھر اپنی بات دہراؤں گا کہ ہر نشریاتی ادارے میں نیوز بلیٹن اور اس سے وابستہ دفاتر، عملے اور افراد ایسے ہوں جن کو دوسرے شعبوں سے علاحدہ مقام حاصل ہو۔ اچھے ماحول اور بہتر فضا میں تیار ہونے والا بلیٹن اپنے انداز سے َظاہر کرے کہ وہ نفاست سے تیار ہوا ہے۔ یہ بات کچھ پڑھنے والوں کو عجیب لگے گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ اچھے زمانوں میں بی بی سی جیسے نشریاتی ادارے میں بلیٹن پڑھنے والوں کے لئے لازمی تھا کہ تھری پیس سوٹ پہن کر اور ٹائی یا بو کے ساتھ اسٹوڈیو میں آئیں۔ مقصد یہی تھا کہ آدمی کی وضع قطع اور اس کے ارد گرد کا ماحول اس کی کار کردگی سے جھلکتا ہے۔
اور اس کی علمیت کی سطح تو منہ کھولتے ہی ظاہر ہوجاتی ہے، تو اپنے علم کو فروغ دیں چاہے اس علم کا ان کے پیشے سے تعلق ہو یا نہ ہو۔مشرقِ وسطیٰ کی خبریں پڑھنے والے کو تاریخ کے اس زمانے کا علم بھی ہونا چاہئے جب اسپین والوں نے قدیم امریکہ میں لوٹ مار مچائی تھی۔برماکے ہنگامے کی خبریں پڑھنے والا اگر ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی پر بھی دو چار کتابیں پڑھ لے تو اس سے سینکڑوں کا بھلا ہوگا۔ہمارے بزرگوںکے بارے میں مشہور ہے کہ گرا پڑا کاغذ بھی اٹھا کر پڑھتے تھے کہ شاید کوئی کام کی بات لکھی ہو۔مطلب یہ کہ وہ علم جسے ہم جنرل نالج کہتے ہیں، ایک بحرِ بے کراں ہے جس کی نہ اور ہے نہ چھور۔ ہاں جو خوبی کی با ت ہے اس کا بھی اعترف کرنا چاہئے۔خبروں میں اکثر کہا جاتا تھا کہ شدید بارش کے بعد شہر کے کئی علاقے جل تھل ہوگئے۔ توجہ دلائے جانے کے بعد اب صحت کے ساتھ کہنے لگے ہیں کہ ’جل تھل ایک ہوگئے‘۔لیکن کیا خبریں پڑھنے والے اور کیا عام لوگ سبھی لفظ متحدہ غلط ادا کرتے ہیں۔ وہ اقوامِ متحدہ کہتے ہوئے دال پر تشدید لگاتے ہیں حالاں کہ انہیں تے پر تشدید لگانی چاہئے۔ متحدّہ کہنا غلط ہے۔ صحیح تلفظ میں تشدید تے پر ہوتی ہے: متّحدہ۔
ہمارے ایک رفیق کارپنجاب سے تھے لیکن اردو بہت صاف بولتے تھے۔ بس لفظ مغربی کو درمیان سے توڑ دیتے تھے۔ مغرالگ او ر بی الگ لیکن مشرقی بالکل صحیح ادا کرتے تھے۔اس کے بعد انہوں نے جب بھی مغر۔بی ادا کیا، خود ہی مسکر ا کر جھینپ گئے۔ ہمیں ان کی یہ ادا اچھی لگی اور پھر ہم چپ ہی رہے۔(بشکریہ جنگ)