تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ونس اپان اے ٹائم،ایک بچہ اپنے والد سے پوچھتا ہے، باباآدمی کس طرح وجود میں آیا؟؟ باپ نے اسے سمجھایا، بیٹا پہلے انسان بندرتھا،بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دُم غائب اور چہرے بدل گئے تو وہ انسان بن گیا۔۔بچے کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اپنی ماں سے پوچھا، مما،آدمی کس طرح وجود میں آیا؟؟ ماں نے اسے بتایا کہ، خدانے انسان کا جسم بنایا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور آدمی وجود میں آیا۔۔بچے نے کہا،لیکن بابا تو کہہ رہے تھے کہ انسان پہلے بندرتھا۔۔ماں نے بچے کو گھورتے ہوئے کہا، او کے، بابا نے تجھے اپنی فیملی کے متعلق بتایا اور میں نے اپنی فیملی کے متعلق۔۔۔
یہ واقعہ سنانے کا مطلب باپ کی ’’بزتی‘‘ کرنا ہرگز نہیں تھا۔۔ بس ایویں ہی دماغ میں یہ واقعہ کلبلارہا تھا تو لکھ مارا۔۔ ایک اور واقعہ سنیں۔۔وہ یونیورسٹی کی ا سٹوڈنٹ تھی اور ایسے ہی ہار ماننے والی نہیں تھی – اسے پتہ چلا تھا کہ اس کے کلاس فیلو کو اپنے ابا جی سے پھینٹی پڑی ہے کیونکہ لاک ڈائون کے دوران اس کے گھر والوں کو ان کے تعلق کا پتہ چل گیا تھا۔۔ اس نے ڈرتے ڈرتے وہی مانوس سا نمبر ڈائل کیا۔ آگے سے بھاری اور اجنبی آواز میں ہیلو کہا گیا ۔۔ اس نے اپنی ہمت جمع کی اور دو ٹوک انداز میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۔السلام علیکم انکل۔
مجھے آپ سے ہی بات کرنی ہے۔ انکل میں وہی لڑکی بول رہی ہوں جس کے ساتھ تعلق پر کل آپ نے اپنے اکلوتے بیٹے کی درگت بنائی ہے۔ انکل وہ آپ کا اکلوتا بیٹا ہے، آپ کو اس کی پسند کا خیال کرنا چاہیے۔ انکل ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور بہت اچھی زندگی ساتھ میں گزار سکتے ہیں۔ انکل پلیز ایک بار اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔۔ایک ہی سانس میں اس نے ساری بات کہہ دی۔ دوسری طرف تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر جواب آیا۔۔۔جی نتاشا بیٹا، آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ مجھے بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ جلد ہی ہم آپ کے گھر رشتہ لے کر آئیں گے۔۔ دھیمے لہجے میں جواب آیا، جس کی وہ بالکل توقع نہیں کر رہی تھی۔۔جی انکل شکریہ، لیکن میرا نام نتاشا نہیں، حنا ہے۔ ۔۔اسی دھیمے لہجے نے پھر فون پر بولنا شروع کیا۔۔ لیکن میرے بیٹے کا تعلق تو نتاشا سے ہے۔ اس نے خود بھی یہی نام بتایا ہے، جو چیٹ پڑھی تھی اس میں بھی یہی نام تھا۔ اور جو مری والی ویڈیو آپ نے بھیجی ہوئی تھی اس میں بھی تو یہ بار بار یہی کہہ رہاتھا کہ نتاشا برف نہ پھینکو، کیمرے میں پانی چلا جائے گا۔ ۔ دوسری طرف سے گہری خاموشی چھا گئی۔وہ سوچ رہی تھی کہ وہ تو کبھی اس کے ساتھ مری نہیں گئی۔ ایسی کوئی ویڈیو بھی نہیں بنائی۔یہی سوچتے ہوئے اس نے کال کاٹ دی کہ اس کمبخت کا کسی اور سے بھی تعلق ہے۔۔کال کٹتے ہی اس لڑکے کے ابا جی زیر لب مسکرائے اور یہ کہتے ہوئے موبائل رکھ دیا کہ۔۔ ابا، ابا ہی ہندا اے۔میرے پتر!تیری اصل پھینٹی تے ہن ادھوں لگنی اے جدوں توں یونیورسٹی جاویں گا۔ فیر لکھ صفائیاں دیندا پھریں کہ اے نتاشا کون اے ۔۔
باپ بننے کے لیے اولاد کا ہونا ضروری تو نہیں۔۔لڑکا لائبریری گیا اور میز پر اکیلی بیٹھی لڑکی سے پوچھا،کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟لڑکی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر چیخ کر کہا۔۔تمہاری یہ جرات تم مجھے اپنے ساتھ چلنے کا کہو۔۔لڑکا ہکابکا رے گیا،ساری لائبریری اسے دیکھ رہی تھی، بے چارا کھسیا کر دوسری ٹیبل پر بیٹھ گیا۔۔کچھ دیر بعد وہ لڑکی کام سمیٹ کر مسکراتی ہوئی اس لڑکے کے پاس آئی اسے آہستہ سے کہا۔۔ میں نفسیات کی طالبہ ہوں مجھے احساس ہے تم اس وقت کیسا محسوس کر رہے ہوگے بس میں ایک تجربہ کر رہی تھی۔۔لڑکے نے اچانک چیخ کر کہا۔۔بے شرم کچھ دیر باہر جانے کے لیے اتنے زیادہ پیسے مانگ رہی ہو؟۔ ۔ پوری لائبریری آنکھیں پھاڑ کر لڑکی کو دیکھنے لگی۔۔لڑکا سرگوشیانہ لہجے میں بولا۔۔میں قانون کا طالب علم ہوں،مجھے پتہ ہے کسی کو ملزم کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے،یہ تو ویسے ہی آپ سے مذاق کر رہا تھا۔۔
شادی کے دن نئی نویلی دلہن نے ایک بھاری بھرکم اٹیچی کیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے شوہر سے وعدہ لیا کہ وہ اس کی زندگی میں اس اٹیچی کیس کو کبھی نہیں کھولے گا۔ شوہر نے وعدہ کر لیا۔شادی کے پچاسویں سال بیوی جب بسترمرگ پر پڑ گئی تو خاوند نے اسے اٹیچی کیس یاد دلایا۔بیوی بولی۔۔اب یہ وقت ہے اس اٹیچی کیس کے راز کو افشا کرنے کا۔ اب آپ اس اٹیچی کیس کو کھول سکتے ہیں۔۔خاوند نے اٹیچی کیس کھولا تو اس میں سے دو گڑیاں اورڈھیر سارے روپے نکلے جو گنے تو ایک کروڑ بنے۔۔خاوند کے پوچھنے پر بیوی بولی۔۔میری ماں نے مجھے اپنی کامیاب شادی کا راز بتاتے ہوئے نصیحت کی تھی کہ غصہ پی جانا بہت ہی اچھا ہے۔ اس لیے میری ماں نے مجھے طریقہ بتایا تھا کہ جب بھی تمہارا خاوند تمہیں دھوکا دے، بدتمیزی کرے، بکواس کرے، غلطی ماننے سے انکار کردے تو اپنے خاوند کی کسی غلط بات پر غصہ آئے تو تم بجائے خاوند پر غصہ نکالنے کی بجائے بس ایک گڑیا سی لیا کرنا۔تو مجھے جب بھی آپ کی کسی غلط بات پر غصہ آیا میں نے گڑیا سی لی.اس طرح غصہ ٹھنڈا کر لیا کرتی تھی۔۔خاوند دو گڑیاں دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ اس نے اپنی بیوی کو کتنا خوش رکھا ہوا ہے کیونکہ بیوی نے پچاس سال کی کامیاب ازدواجی زندگی میں صرف دو گڑیاں ہی سی تھیں۔خاوند نے تجسس سے اٹیچی میں موجود ایک کروڑ روپوں کے بارے میں پوچھا تو بیوی قدرے شرما کر بولی۔۔یہ پیسے میں نے گڑیاں بیچ بیچ کر اکٹھے کیے ہیں۔۔۔واقعہ کی دُم: شوہر اگر باپ بننے کی کوشش کرتاتوایسی صبروالی چار ہوتیں اور چار کروڑ ہوتے پھر اس کے پاس۔۔
کسی زمانے میں روزانہ رات کو باقاعدگی سے ابو کی ٹانگیں دباتا اور سر کی مالش کرتا تھا پھر لیپ ٹاپ اور انڈرائڈ موبائل آیا اور اس فریضے کو گویا بھول ہی گیا۔پچھلے دنوں ابا جی ایک لمبے سفر سے لوٹے تو تھکن کی وجہ سے چال میں کچھ لنگراہٹ سی محسوس ہوئی۔نہ جانے کیوں دل میں خیال آیا اور ابا کی ٹانگیں دبانے بیٹھ گیا ابا نے بس ایک سوال پوچھا۔۔۔بیٹا موبائل تو ٹھیک ہے نا؟؟سردیاں شدت اختیار کرتی جارہی ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔بندہ کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو، نہاتے وقت ٹھنڈا اوپر پڑنے سے دو،چار ٹھمکے ازخود نکل جاتے ہیں۔۔باباجی مزید فرماتے ہیں۔۔ مورخ اگر کورونا سے بچ گیا تو لکھے گا ایک قوم صرف ایک جملے کی وجہ سے تباہ ہوئی۔۔یار یہ کورونا ،ورونا کچھ نہیں ہوتا، موت برحق ہے جب لکھی ہوگی آجائے گی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بچے لڑتے ہوئے اتنا شورنہیں کرتے جتنا انہیں چپ کراتے ہوئے ان کی ماں کرتی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔